كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125] صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ البَيْتَ، دَعَا فِي نَوَاحِيهِ كُلِّهَا، وَلَمْ يُصَلِّ حَتَّى خَرَجَ مِنْهُ، فَلَمَّا خَرَجَ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي قُبُلِ الكَعْبَةِ، وَقَالَ: «هَذِهِ القِبْلَةُ»
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
باب: مقام ابراہیم کو مصلٰے بناؤ
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابن جریج نے خبر پہنچائی عطاء ابن ابی رباح سے، انھوں نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تو اس کے چاروں کونوں میں آپ نے دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔ پھر جب باہر تشریف لائے تو دو رکعت نماز کعبہ کے سامنے پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔
تشریح :
اور یہ اب کبھی منسوخ نہیں ہوگا یعنی مقام ابراہیم کے پاس اس طرح یہ حدیث باب کے مطابق ہوگئی۔ حضرت الامام کا ان احادیث کے لانے کا مقصد یہ ہے کہ آیت شریفہ واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی ( البقرۃ: 125 ) میں امروجوب کے لیے نہیں ہے۔ آدمی کعبہ کی طرف منہ کرکے ہر جگہ نماز پڑھ سکتا ہے خواہ مقام ابراہیم میں پڑھے یا کسی اور جگہ میں۔ اس روایت میں کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا ذکر نہیں ہے، اگلی روایت میں یہ ذکر موجود ہے۔ تطبیق یہ ہے کہ آپ کعبہ کے اندر شاید کئی دفعہ ہوئے بعض دفعہ آپ نے نماز پڑھی، بعض دفعہ صرف دعا پر اکتفاکیا اور کعبہ میں داخل ہونے کے دونوں طریقے جائز ہیں۔
اور یہ اب کبھی منسوخ نہیں ہوگا یعنی مقام ابراہیم کے پاس اس طرح یہ حدیث باب کے مطابق ہوگئی۔ حضرت الامام کا ان احادیث کے لانے کا مقصد یہ ہے کہ آیت شریفہ واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی ( البقرۃ: 125 ) میں امروجوب کے لیے نہیں ہے۔ آدمی کعبہ کی طرف منہ کرکے ہر جگہ نماز پڑھ سکتا ہے خواہ مقام ابراہیم میں پڑھے یا کسی اور جگہ میں۔ اس روایت میں کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا ذکر نہیں ہے، اگلی روایت میں یہ ذکر موجود ہے۔ تطبیق یہ ہے کہ آپ کعبہ کے اندر شاید کئی دفعہ ہوئے بعض دفعہ آپ نے نماز پڑھی، بعض دفعہ صرف دعا پر اکتفاکیا اور کعبہ میں داخل ہونے کے دونوں طریقے جائز ہیں۔