‌صحيح البخاري - حدیث 3973

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ صحيح أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ [ص:76] بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: «كَانَ فِي الزُّبَيْرِ ثَلَاثُ ضَرَبَاتٍ بِالسَّيْفِ إِحْدَاهُنَّ فِي عَاتِقِهِ» قَالَ: «إِنْ كُنْتُ لَأُدْخِلُ أَصَابِعِي فِيهَا» قَالَ: «ضُرِبَ ثِنْتَيْنِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَوَاحِدَةً يَوْمَ اليَرْمُوكِ» قَالَ عُرْوَةُ: وَقَالَ لِي عَبْدُ المَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ، حِينَ قُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ: يَا عُرْوَةُ، هَلْ تَعْرِفُ سَيْفَ الزُّبَيْرِ؟ قُلْتُ: «نَعَمْ» قَالَ: فَمَا فِيهِ؟ قُلْتُ: «فِيهِ فَلَّةٌ فُلَّهَا يَوْمَ بَدْرٍ» قَالَ: صَدَقْتَ، [البحر الطويل] بِهِنَّ فُلُولٌ مِنْ قِرَاعِ الكَتَائِبِ ، ثُمَّ رَدَّهُ عَلَى عُرْوَةَ، قَالَ هِشَامٌ: فَأَقَمْنَاهُ بَيْنَنَا ثَلاَثَةَ آلَافٍ، وَأَخَذَهُ بَعْضُنَا، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ أَخَذْتُهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3973

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: ( بدر کے دن ) ابوجہل کا قتل ہونا مجھے ابراہیم بن موسیٰ نے خبر دی ، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ، ان سے معمر نے ، ان سے ہشام نے ، ان سے عروہ نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کے جسم پر تلوار کے تین ( گہرے ) زخموں کے نشانات تھے ، ایک ان کے مونڈھے پر تھا ( اور اتنا گہرا تھا ) کہ میں بچپن میں اپنی انگلیاں ان میں داخل کردیا کرتا تھا ۔ عروہ نے بیان کیا کہ ان میں سے دوزخم بدر کی لڑائی میں آئے تھے اور ایک جنگ یرموک میں ۔ عروہ نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کو ( حجاج ظالم کے ہاتھوں سے ) شہید کردیا گیا تو مجھ سے عبدالملک بن مروان نے کہا ، اے عروہ ! کیا زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار تم پہچانتے ہو ؟ میں نے کہا کہ ہاں ، پہچانتا ہوں ۔ اس نے پوچھا اس کی نشانی بتاو ؟ میں نے کہا کہ بدر کی لڑائی کے موقع پر اس کی دھار کا ایک حصہ ٹوٹ گیا تھا ، جو ابھی تک اس میں باقی ہے ۔ عبدالملک نے کہا کہ تم نے سچ کہا ( پھرا س نے نابغہ شاعر کا یہ مصرع پڑھا ) فوجوں کے ساتھ لڑ تے لڑتے ان کی تلوارں کی دھاریں کی جگہ سے ٹوٹ گی ہیں “ پھر عبد الملک نے وہ تلوار عروہ کو واپس کردی‘ ہشام نے بیان کیا کہ ہمارا اندازہ تھا کہ اس تلوار کی قیمت تین ہزار درہم تھی ۔ وہ تلوار ہمارے ایک عزیز ( عثمان بن عروہ ) نے قیمت دے کر لے لی تھی میری بڑی آ رزو تھی کہ کاش ! وہ تلوار میرے حصے میں آتی ۔
تشریح : یرموک ملک شام میں ایک گاؤں کا نام تھا وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں 15 ھ میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں جنگ ہوئی تھی مسلمانوں کے سردار ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے اور عیسائیوں کا سردار باہان تھااس جنگ میں عیسائی ستر ہزار مارے گئے چالیس ہزار قید ہوے مسلمان بھی چار ہزار شہید ہوئے اس جنگ میں ایک سو بدری صحابی شریک تھے ( فتح الباری ) یرموک ملک شام میں ایک گاؤں کا نام تھا وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں 15 ھ میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں جنگ ہوئی تھی مسلمانوں کے سردار ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے اور عیسائیوں کا سردار باہان تھااس جنگ میں عیسائی ستر ہزار مارے گئے چالیس ہزار قید ہوے مسلمان بھی چار ہزار شہید ہوئے اس جنگ میں ایک سو بدری صحابی شریک تھے ( فتح الباری )