‌صحيح البخاري - حدیث 3968

كِتَابُ المَغَازِي بَابُ قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُقْسِمُ لَنَزَلَتْ هَؤُلَاءِ الْآيَاتُ فِي هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ نَحْوَهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3968

کتاب: غزوات کے بیان میں باب: ( بدر کے دن ) ابوجہل کا قتل ہونا ہم سے یحیٰ بن جعفر نے بیان کیا ، ہم کو وکیع نے خبر دی ، انہیں سفیان نے ، انہیں ابو ہاشم نے ، انہیں ابومجلزنے ، انہیں قیس بن عباد نے اور انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ قسمیہ بیان کرتے تھے کہ یہ آیت ( جو اوپر گزری ) انہیں چھ آدمیوں کے بارے میں ، بدر کی لڑائی کے موقع پر نازل ہوئی تھی ۔ پہلی حدیث کی طرح راوی نے اسے بھی بیان کیا ۔
تشریح : ان روایات میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ راوی کا نام باربار آیا ہے۔ یہ مشہور صحابی ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ہیں جن کا نام جندب اور لقب مسیح الاسلام ہے۔ قبیلہ غفار سے ہیں۔ یہ عہد جاہلیت ہی میں موحد تھے۔ اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر لینے کے لیے انہوں نے اپنے بھائی کوبھیجا تھا۔ بعد میں خود گئے اور بڑی مشکلات کے بعد دربار رسالت میں باریابی ہوئی۔ تفصیل سے ان کے حالات پیچھے بیان کئے جا چکے ہیں۔ 31ھ میں بمقام ربذہ ان کاانتقال ہوا، جہاں یہ تنہا رہا کرتے تھے۔ جب یہ قریب المرگ ہوئے تو ان کی زوجہ محترمہ رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ آپ ایک صحرا میں اس حالت میں سفر آخرت کررہے ہیں کہ آپ کے کفن کے لیے یہاں کوئی کپڑا بھی نہیں ہے۔ فرمایا، رونا موقوف کرو اور سنو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں صحرا میں انتقال کروں گا۔ میری موت کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت صحرا میں میرے پاس پہنچ جائے گی۔ لہذا تم راستے پر کھڑی ہو کر اب اس جماعت کا انتظار کرو۔ یہ غیبی امداد حسب ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور آرہی ہوگی۔ چنانچہ ان کی اہلیہ صاحبہ رضی اللہ عنہاگزرگاہ پر کھڑی ہوگئیں۔ تھوڑے ہی انتظار کے بعد دور سے کچھ سوار آتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے اشارہ کیا وہ ٹھہر گئے اور معلوم ہونے پر یہ سب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی عیادت کو گئے جن کو دیکھ کر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا پیش گوئی سنائی، پھر وصیت کی کہ اگر میری بیوی کے پاس میرے کفن کے لیے کپڑا نکلے تو اسی کپڑے میں مجھ کو کفنانا اورقسم دلائی کی تم میں جو شخص حکومت کا ادنی عہدیدار بھی ہو وہ مجھ کونہ کفنائے۔ چنانچہ اس جماعت میں صرف ایک انصاری نوجوان ایسا ہی نکلا اور وہ بولا کہ چچاجان ! میرے پاس ایک چادر ہے اس کے علاوہ دوکپڑے اور ہیں جو خاص میری والدہ کے ہاتھ کے کتے ہوئے ہیں۔ ان ہی میں آپ کو کفناؤں گا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے خوش ہو کرفرمایا کہ ہاں تم ہی مجھ کو ان ہی کپڑوں میں کفن پہنانا۔ اس وصیت کے بعد ان کی روح پاک عالم بالا کو پرواز کر گئی۔ اس جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کو کفنایا دفنایا۔ کفن اس انصاری نوجوان نے پہنایا اور جنازہ کی نماز حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ پھر سب نے مل کر اس صحرا کے ایک گوشہ میں ان کو سپر خاد کردیا۔ رضی اللہ عنہم ( مستدرک حاکم، ج:3 ص : 346 ) ان روایات میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ راوی کا نام باربار آیا ہے۔ یہ مشہور صحابی ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ہیں جن کا نام جندب اور لقب مسیح الاسلام ہے۔ قبیلہ غفار سے ہیں۔ یہ عہد جاہلیت ہی میں موحد تھے۔ اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر لینے کے لیے انہوں نے اپنے بھائی کوبھیجا تھا۔ بعد میں خود گئے اور بڑی مشکلات کے بعد دربار رسالت میں باریابی ہوئی۔ تفصیل سے ان کے حالات پیچھے بیان کئے جا چکے ہیں۔ 31ھ میں بمقام ربذہ ان کاانتقال ہوا، جہاں یہ تنہا رہا کرتے تھے۔ جب یہ قریب المرگ ہوئے تو ان کی زوجہ محترمہ رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ آپ ایک صحرا میں اس حالت میں سفر آخرت کررہے ہیں کہ آپ کے کفن کے لیے یہاں کوئی کپڑا بھی نہیں ہے۔ فرمایا، رونا موقوف کرو اور سنو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں صحرا میں انتقال کروں گا۔ میری موت کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت صحرا میں میرے پاس پہنچ جائے گی۔ لہذا تم راستے پر کھڑی ہو کر اب اس جماعت کا انتظار کرو۔ یہ غیبی امداد حسب ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور آرہی ہوگی۔ چنانچہ ان کی اہلیہ صاحبہ رضی اللہ عنہاگزرگاہ پر کھڑی ہوگئیں۔ تھوڑے ہی انتظار کے بعد دور سے کچھ سوار آتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے اشارہ کیا وہ ٹھہر گئے اور معلوم ہونے پر یہ سب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی عیادت کو گئے جن کو دیکھ کر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا پیش گوئی سنائی، پھر وصیت کی کہ اگر میری بیوی کے پاس میرے کفن کے لیے کپڑا نکلے تو اسی کپڑے میں مجھ کو کفنانا اورقسم دلائی کی تم میں جو شخص حکومت کا ادنی عہدیدار بھی ہو وہ مجھ کونہ کفنائے۔ چنانچہ اس جماعت میں صرف ایک انصاری نوجوان ایسا ہی نکلا اور وہ بولا کہ چچاجان ! میرے پاس ایک چادر ہے اس کے علاوہ دوکپڑے اور ہیں جو خاص میری والدہ کے ہاتھ کے کتے ہوئے ہیں۔ ان ہی میں آپ کو کفناؤں گا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے خوش ہو کرفرمایا کہ ہاں تم ہی مجھ کو ان ہی کپڑوں میں کفن پہنانا۔ اس وصیت کے بعد ان کی روح پاک عالم بالا کو پرواز کر گئی۔ اس جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کو کفنایا دفنایا۔ کفن اس انصاری نوجوان نے پہنایا اور جنازہ کی نماز حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ پھر سب نے مل کر اس صحرا کے ایک گوشہ میں ان کو سپر خاد کردیا۔ رضی اللہ عنہم ( مستدرک حاکم، ج:3 ص : 346 )