‌صحيح البخاري - حدیث 396

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125] صحيح وَسَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: «لاَ يَقْرَبَنَّهَا حَتَّى يَطُوفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 396

کتاب: نماز کے احکام و مسائل باب: مقام ابراہیم کو مصلٰے بناؤ عمرو بن دینار نے کہا، ہم نے جابر بن عبداللہ سے بھی یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ وہ بیوی کے قریب بھی اس وقت تک نہ جائے جب تک صفا اور مروہ کی سعی نہ کر لے۔
تشریح : گویا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ اشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی واجب ہے اور یہ بھی بتایاکہ صفا اور مروہ میں دوڑنا واجب ہے اور جب تک یہ کام نہ کرے عمرہ کا احرام نہیں کھل سکتا۔ حضرت امام حمیدی اور ائمہ احناف رحمہم اللہ اجمعین: صاحب انوارالباری نے حضرت امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بعض جگہ بہت ہی نامناسب الفاظ استعمال کئے ہیں ان کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا رفیق سفر اور ان کے مذہب کابڑا علم بردار بتاتے ہوئے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مخالف قرار دیا ہے۔ ( دیکھو انوارالباری،جلدہفتم،ص: 44 ) چونکہ امام حمیدی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اکابراساتذہ میں سے ہیں اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کو اپنے بزرگ استاد سے کافی متاثر اور حنفیت کے لیے شدید متعصب نظر آتے ہیں۔ اس نامناسب بیان کے باوجود صاحب انوارالباری نے شاہ صاحب ( مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) سے جو ہدایات نقل فرمائی ہیں، وہ اگرہر وقت ملحوظ خاطر رہیں تو کافی حد تک تعصب اور تقلید جامد سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔شاہ صاحب کے ارشادات صاحب انوار الباری کے لفظوں میں یہ ہیں۔ ہمیں اپنے اکابر کی طرف سے کسی حالت میں بدگمان نہ ہونا چاہئیے حتیٰ کہ ان حضرات سے بھی جن سے ہمارے مقتداؤں کے بارے میں صرف برے کلمات ہی نقل ہوئے ہوں کیونکہ ممکن ہے ان کی رائے آخر وقت میں بدل گئی ہو اور وہ ہمارے ان مقتداؤں کی طرف سے سلیم الصدر ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔ غرض سب سے بہتر اور اسلم طریقہ یہی ہے کہ “ قصہ زمیں برسرزمیں ” ختم کردیا جائے اور آخرت میں سب ہی حضرات اکابر کوپوری عزت اور سربلندی کے ساتھ اور آپس میں ایک دوسرے سے خوش ہوتے ہوئے ملیک مقتدر کے دربار خاص میں یکجا ومجتمع تصور کیاجائے، جہاں وہ سب ارشاد خداوندی ونزعنا ما فی صدورہم من غل اخوانا علی سرر متقبلین ( الحجر: 47 ) کے مظہر اتم ہوں گے۔ ان شاءاللہ العزیز۔ ” ( انوارالباری، جلد7،ص: 45 ) ہمیں بھی یقین ہے کہ آخرت میں یہی معاملہ ہوگا، مگرشدید ضرورت ہے کہ دنیا میں بھی جملہ کلمہ گومسلمان ایک دوسرے کے لیے اپنے دلو ںمیں جگہ پیدا کریں اور ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں تاکہ وہ امت واحدہ کا نمونہ بن کر آنے والے مصائب کا مقابلہ کرسکیں۔ اس بارے میں سب سے زیادہ ذمہ داری ان ہی علماءکرام کی ہے جو امت کی عزت و ذلت کے واحد ذمہ دار ہیں، اللہ ان کو نیک سمجھ عطاکرے۔ کسی شاعر نے ٹھیک کہا ہے وما افسد الدین الا الملوک و احبار سوءو رہبانہا یعنی دین کو بگاڑنے میں زیادہ حصہ ظالم بادشاہوں اور دنیا دار مولویوں اور مکار درویشوں ہی کا رہا ہے۔ اعاذنا اللہ منہم گویا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ اشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی واجب ہے اور یہ بھی بتایاکہ صفا اور مروہ میں دوڑنا واجب ہے اور جب تک یہ کام نہ کرے عمرہ کا احرام نہیں کھل سکتا۔ حضرت امام حمیدی اور ائمہ احناف رحمہم اللہ اجمعین: صاحب انوارالباری نے حضرت امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بعض جگہ بہت ہی نامناسب الفاظ استعمال کئے ہیں ان کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا رفیق سفر اور ان کے مذہب کابڑا علم بردار بتاتے ہوئے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مخالف قرار دیا ہے۔ ( دیکھو انوارالباری،جلدہفتم،ص: 44 ) چونکہ امام حمیدی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اکابراساتذہ میں سے ہیں اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کو اپنے بزرگ استاد سے کافی متاثر اور حنفیت کے لیے شدید متعصب نظر آتے ہیں۔ اس نامناسب بیان کے باوجود صاحب انوارالباری نے شاہ صاحب ( مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) سے جو ہدایات نقل فرمائی ہیں، وہ اگرہر وقت ملحوظ خاطر رہیں تو کافی حد تک تعصب اور تقلید جامد سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔شاہ صاحب کے ارشادات صاحب انوار الباری کے لفظوں میں یہ ہیں۔ ہمیں اپنے اکابر کی طرف سے کسی حالت میں بدگمان نہ ہونا چاہئیے حتیٰ کہ ان حضرات سے بھی جن سے ہمارے مقتداؤں کے بارے میں صرف برے کلمات ہی نقل ہوئے ہوں کیونکہ ممکن ہے ان کی رائے آخر وقت میں بدل گئی ہو اور وہ ہمارے ان مقتداؤں کی طرف سے سلیم الصدر ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔ غرض سب سے بہتر اور اسلم طریقہ یہی ہے کہ “ قصہ زمیں برسرزمیں ” ختم کردیا جائے اور آخرت میں سب ہی حضرات اکابر کوپوری عزت اور سربلندی کے ساتھ اور آپس میں ایک دوسرے سے خوش ہوتے ہوئے ملیک مقتدر کے دربار خاص میں یکجا ومجتمع تصور کیاجائے، جہاں وہ سب ارشاد خداوندی ونزعنا ما فی صدورہم من غل اخوانا علی سرر متقبلین ( الحجر: 47 ) کے مظہر اتم ہوں گے۔ ان شاءاللہ العزیز۔ ” ( انوارالباری، جلد7،ص: 45 ) ہمیں بھی یقین ہے کہ آخرت میں یہی معاملہ ہوگا، مگرشدید ضرورت ہے کہ دنیا میں بھی جملہ کلمہ گومسلمان ایک دوسرے کے لیے اپنے دلو ںمیں جگہ پیدا کریں اور ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں تاکہ وہ امت واحدہ کا نمونہ بن کر آنے والے مصائب کا مقابلہ کرسکیں۔ اس بارے میں سب سے زیادہ ذمہ داری ان ہی علماءکرام کی ہے جو امت کی عزت و ذلت کے واحد ذمہ دار ہیں، اللہ ان کو نیک سمجھ عطاکرے۔ کسی شاعر نے ٹھیک کہا ہے وما افسد الدین الا الملوک و احبار سوءو رہبانہا یعنی دین کو بگاڑنے میں زیادہ حصہ ظالم بادشاہوں اور دنیا دار مولویوں اور مکار درویشوں ہی کا رہا ہے۔ اعاذنا اللہ منہم