‌صحيح البخاري - حدیث 3948

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ إِسْلاَمِ سَلْمَانَ الفَارِسِيِّ ؓ صحيح حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ فَتْرَةٌ بَيْنَ عِيسَى وَمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ سِتُّ مِائَةِ سَنَةٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3948

کتاب: انصار کے مناقب حضرت سلمان فارسی ؓ کے ایمان لانے کا واقعہ مجھ سے حسن بن مدرک نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابو عوانہ نے خبر دی ، انہیں عاصم احول نے ، انہیں ابو عثمان نہدی نے اور ان سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ، عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں فترت کا زمانہ ( یعنی جس میں کوئی پیغمبر نہیں آیا ) چھ سو برس کا وقفہ گزراہے ۔
تشریح : حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی ۔ ان کو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرایا تھا۔ فارس کے شہر رام ہرمزکے رہنے والے تھے، دین حق کی طلب میں انہوں نے ترک وطن کیا اور پہلے عیسائی ہوئے۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا پھر قوم عرب نے ان کوگرفتار کر کے یہودیوں کے ہاتھوں بیچ ڈالا یہاں تک کہ یہ مدینہ پہنچ گئے اور پہلی ہی صحبت میں دولت ایمان سے ما لا مال ہو گئے پھر انہوں نے اپنے یہودی مالک سے مکاتبت کرلی جس کی رقم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمائی ۔ مدینہ آنے تک یہ دس جگہ غلام بنا کر فروخت کئے گئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت خوش تھے۔ آپ نے فرمایا کہ سلمان ہمارے اہل بیت سے ہیں، جنت ان کے قدموں کی منتظر ہے۔ اڑھائی سو سال کی عمر طویل پائی۔ اپنے ہاتھ سے روزی کماتے اور صدقہ خیرات بھی کرتے ۔ 35ھ میں شہر مدائن میں ان کا انتقال ہوا۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ ( آمین ) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مزید حالات: آپ علاقہ اصفہان کے ایک دیہات کے ایک دیہاتی کسان کے اکلوتے فرزند تھے۔ باپ وفور محبت میں لڑکیوں کی طرح گھر ہی میں بند رکھتا تھا۔ آتش کدہ کی دیکھ بھال سپرد تھی۔ مجوسیت کے بڑے پختہ کار پجاری سے یکایک پختہ کار عیسائی بن گئے۔ اس طرح کہ ایک روز اتفاقاً کھیت کو گئے ، اثنائے راہ میں عیسائیوں کو نماز پڑھتے دیکھ کر اس طرز عبادت پر والہانہ فریفتہ ہو گئے۔ باپ نے مقید کر دیا مگر آپ کسی طرح بھاگ کر عیسائیوں کے ساتھ شام کے ایک بشب کی خدمت میں پہنچ گئے جو بہت بد اخلاق تھا اور صدقہ کا تمام روپیہ لے کر خود رکھ لیتا تھا۔ زندگی میں تو کچھ کہہ نہ سکے جب وہ مرا اور عیسائی اسے شان و شوکت کے ساتھ دفن کر نے پر تیار ہوئے تو آپ نے اس کا سارا پول کھول کر رکھ دیا اور تصدیق کے طور پر سات مٹکے سونے چاندی سے لبریز دکھا دیئے اور سزا کے طور پر اس کی لاش صلیب پر آویزاں کردی گئی۔ دوسرا بشپ بہت متقی و عابد بھی تھا اور آپ سے محبت بھی رکھتا تھا مگر اسے جلد پیام موت آگیا ۔ آپ کے استفسار پر فرمایا اب تو میرے علم میں کوئی عیسائی نہیں ۔ جو تھے ، مرچکے دین میں بہت کچھ تحریف ہوچکی ، البتہ موصل میں ایک شخص ہے، اس کے پاس چلے جاؤ۔ اس کے پاس پہنچ کر کچھ ہی مدت رہنے پائے تھے کہ اس کا بھی وقت آگیا اور وہ نصیبا میں ایک پادری کا پتہ بتا گیا، یہ سب سے زیادہ عابد وزاہد تھا۔ عموریہ میں ایک شخص کا پتہ دے کر یہ بھی راہی ملک بقا ہوا لیکن جب اسقف عموریہ بھی جلد ہی بستر مرگ پردراز ہوا تو آپ افسردہ ہوئے۔ اسقف نے کہا بیٹا اب تو دنیامیں مجھے کوئی ایسا نظر نہیں آتا کہ میں تجھے جس کے پاس جانے کا مشورہ دوں ۔ عنقریب ریگستان عرب سے پیغمبر آخر الزماں پیدا ہونے والے ہیں ، جن کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی اور صدقہ اپنے اوپر حرام سمجھیں گے۔ آخر ی وصیت یہی ہے کہ ممکن ہوتو ان سے ضرور ملنا، ایک عرصہ تک آپ عموریہ میں ہی رہے، بکریاں چراتے پالتے اور اسی پر اپنا گزارہ کرتے رہے۔ ایک روز عرب تاجروں کے ایک قافلہ کو ادھر سے گزرتا دیکھ کر ان سے کہا کہ اگر تم مجھے عرب پہنچا دو تو میں اس کے صلہ میں اپنی سب بکریاں تمہاری نذر کردوں گا۔ انہوں نے وادی القریٰ پہنچتے ہی آپ کو غلام بناکر فروخت کردیا لیکن اس غلامی پر جو کسی کے آستان نازک تک رسائی کا ذریعہ بن جائے تو ہزاروں آزادیاں قربان کی جاسکتی ہیں۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی ۔ ان کو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرایا تھا۔ فارس کے شہر رام ہرمزکے رہنے والے تھے، دین حق کی طلب میں انہوں نے ترک وطن کیا اور پہلے عیسائی ہوئے۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا پھر قوم عرب نے ان کوگرفتار کر کے یہودیوں کے ہاتھوں بیچ ڈالا یہاں تک کہ یہ مدینہ پہنچ گئے اور پہلی ہی صحبت میں دولت ایمان سے ما لا مال ہو گئے پھر انہوں نے اپنے یہودی مالک سے مکاتبت کرلی جس کی رقم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمائی ۔ مدینہ آنے تک یہ دس جگہ غلام بنا کر فروخت کئے گئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت خوش تھے۔ آپ نے فرمایا کہ سلمان ہمارے اہل بیت سے ہیں، جنت ان کے قدموں کی منتظر ہے۔ اڑھائی سو سال کی عمر طویل پائی۔ اپنے ہاتھ سے روزی کماتے اور صدقہ خیرات بھی کرتے ۔ 35ھ میں شہر مدائن میں ان کا انتقال ہوا۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ ( آمین ) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مزید حالات: آپ علاقہ اصفہان کے ایک دیہات کے ایک دیہاتی کسان کے اکلوتے فرزند تھے۔ باپ وفور محبت میں لڑکیوں کی طرح گھر ہی میں بند رکھتا تھا۔ آتش کدہ کی دیکھ بھال سپرد تھی۔ مجوسیت کے بڑے پختہ کار پجاری سے یکایک پختہ کار عیسائی بن گئے۔ اس طرح کہ ایک روز اتفاقاً کھیت کو گئے ، اثنائے راہ میں عیسائیوں کو نماز پڑھتے دیکھ کر اس طرز عبادت پر والہانہ فریفتہ ہو گئے۔ باپ نے مقید کر دیا مگر آپ کسی طرح بھاگ کر عیسائیوں کے ساتھ شام کے ایک بشب کی خدمت میں پہنچ گئے جو بہت بد اخلاق تھا اور صدقہ کا تمام روپیہ لے کر خود رکھ لیتا تھا۔ زندگی میں تو کچھ کہہ نہ سکے جب وہ مرا اور عیسائی اسے شان و شوکت کے ساتھ دفن کر نے پر تیار ہوئے تو آپ نے اس کا سارا پول کھول کر رکھ دیا اور تصدیق کے طور پر سات مٹکے سونے چاندی سے لبریز دکھا دیئے اور سزا کے طور پر اس کی لاش صلیب پر آویزاں کردی گئی۔ دوسرا بشپ بہت متقی و عابد بھی تھا اور آپ سے محبت بھی رکھتا تھا مگر اسے جلد پیام موت آگیا ۔ آپ کے استفسار پر فرمایا اب تو میرے علم میں کوئی عیسائی نہیں ۔ جو تھے ، مرچکے دین میں بہت کچھ تحریف ہوچکی ، البتہ موصل میں ایک شخص ہے، اس کے پاس چلے جاؤ۔ اس کے پاس پہنچ کر کچھ ہی مدت رہنے پائے تھے کہ اس کا بھی وقت آگیا اور وہ نصیبا میں ایک پادری کا پتہ بتا گیا، یہ سب سے زیادہ عابد وزاہد تھا۔ عموریہ میں ایک شخص کا پتہ دے کر یہ بھی راہی ملک بقا ہوا لیکن جب اسقف عموریہ بھی جلد ہی بستر مرگ پردراز ہوا تو آپ افسردہ ہوئے۔ اسقف نے کہا بیٹا اب تو دنیامیں مجھے کوئی ایسا نظر نہیں آتا کہ میں تجھے جس کے پاس جانے کا مشورہ دوں ۔ عنقریب ریگستان عرب سے پیغمبر آخر الزماں پیدا ہونے والے ہیں ، جن کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی اور صدقہ اپنے اوپر حرام سمجھیں گے۔ آخر ی وصیت یہی ہے کہ ممکن ہوتو ان سے ضرور ملنا، ایک عرصہ تک آپ عموریہ میں ہی رہے، بکریاں چراتے پالتے اور اسی پر اپنا گزارہ کرتے رہے۔ ایک روز عرب تاجروں کے ایک قافلہ کو ادھر سے گزرتا دیکھ کر ان سے کہا کہ اگر تم مجھے عرب پہنچا دو تو میں اس کے صلہ میں اپنی سب بکریاں تمہاری نذر کردوں گا۔ انہوں نے وادی القریٰ پہنچتے ہی آپ کو غلام بناکر فروخت کردیا لیکن اس غلامی پر جو کسی کے آستان نازک تک رسائی کا ذریعہ بن جائے تو ہزاروں آزادیاں قربان کی جاسکتی ہیں۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔