‌صحيح البخاري - حدیث 3938

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ صحيح حَدَّثَنِي حَامِدُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ المُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلاَمٍ، بَلَغَهُ مَقْدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَأَتَاهُ يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلاَثٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ، مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ؟، وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ؟، وَمَا بَالُ الوَلَدِ يَنْزِعُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ إِلَى أُمِّهِ؟، قَالَ: «أَخْبَرَنِي بِهِ جِبْرِيلُ آنِفًا» قَالَ ابْنُ سَلاَمٍ: ذَاكَ عَدُوُّ اليَهُودِ مِنَ المَلاَئِكَةِ، قَالَ: «أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُهُمْ مِنَ المَشْرِقِ إِلَى المَغْرِبِ، وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ الحُوتِ، وَأَمَّا الوَلَدُ فَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ المَرْأَةِ نَزَعَ الوَلَدَ، وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ المَرْأَةِ مَاءَ الرَّجُلِ نَزَعَتِ الوَلَدَ» قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ [ص:70] يَا رَسُولَ اللَّهِ: إِنَّ اليَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي، قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلاَمِي، فَجَاءَتِ اليَهُودُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ فِيكُمْ؟» قَالُوا: خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا، وَأَفْضَلُنَا وَابْنُ أَفْضَلِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ» قَالُوا: أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ، «فَأَعَادَ عَلَيْهِمْ»، فَقَالُوا: مِثْلَ ذَلِكَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالُوا: شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا، وَتَنَقَّصُوهُ، قَالَ: هَذَا كُنْتُ أَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3938

کتاب: انصار کے مناقب باب: مجھ سے حامد بن عمر نے بیان کیا ، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے ، ان سے حمید طویل نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہ جب عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کی خبر ہوئی تو وہ آپ سے چند سوال کرنے کے لئے آئے ۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے متعلق پوچھوں گا جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ قیامت کی سب سے پہلی نشانی کیا ہوگی ؟ اہل جنت کی ضیافت سب سے پہلے کس کھانے سے کی جائے گی ؟ اور کیا بات ہے کہ بچہ کبھی باپ پر جاتا ہے اور کبھی ماںپر ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جواب ابھی مجھے حضرت جبریل نے آکر بتایا ہے ۔ عبداللہ بن سلام نے کہا کہ یہ ملائکہ میں یہودیوں کے دشمن ہیں ۔ آپ نے فرمایا قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جائے گی ۔ جس کھانے سے سب سے پہلے اہل جنت کی ضیافت ہوگی وہ مچھلی کی کلیجی کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہو گا ( جو نہایت لذیذ اور زود ہضم ہوتا ہے ) اور بچہ باپ کی صورت پر اس وقت جاتا ہے جب عورت کے پانی پر مرد کا پانی غالب آجائے اور جب مرد کے پانی پر عورت کا پانی غالب آ جائے تو بچہ ماں پر جاتا ہے ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ پھر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہودی بڑے بہتان لگانے والے لوگ ہیں ، اس لئے آپ اس سے پہلے کہ میرے اسلام کے بارے میں انہیں کچھ معلوم ہو ، ان سے میرے متعلق دریافت فرمائیں ۔ چنانچہ چند یہودی آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ تمہاری قوم میں عبد اللہ بن سلام کون ہیں ؟ وہ کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بہتر اور سب سے بہتر کے بیٹے ہیں ، ہم میں سب سے افضل اور سب سے افضل کے بیٹے ہیں ۔ آپ نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر وہ اسلام لائیں ؟ وہ کہنے لگے اس سے اللہ تعالیٰانہیں اپنی پناہ میں رکھے ۔ حضور نے دوبارہ ان سے یہی سوال کیا اور انہوں نے یہی جواب دیا ۔ اس کے بعد عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ باہر آئے اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں ۔ اب وہ کہنے لگے یہ تو ہم میں سب سے بد تر آدمی ہیں اور سب سے بد تر باپ کے بیٹے ہیں ۔ فوراً ہی برائی شروع کردی ، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ً ! اسی کا مجھے ڈر تھا ۔
تشریح : کہ یہودی جب میرے اسلام کا حال سنیں گے تو پہلے ہی برا کہیں گے تو آپ نے سن لیا ان کی بے ایمانی معلوم ہو گئی پہلے تو تعریف کی جب اپنے مطلب کے خلاف ہوا تو لگے برائی کرنے ۔ بے ایمانوں کا یہی شیوہ ہے جو شخص ان کے مشرب کے خلاف ہو وہ کتنا عالم فاضل صاحب ہنر اچھا شخص ہو لیکن اس کی برائی کرتے ہیں۔ اب تو ہر جگہ یہ آفت پھیل گئی ہے کہ اگر کوئی عالم فاضل شخص علمائے سوءکا ایک مسئلہ میں اختلاف کرے تو بس اس کے سارے فضائل اور کمالات کو ایک طرف ڈال کر اس کے دشمن بن جاتے ہیں جو ادبار وتنزل کی نشانی ہے ۔ اکثر فقہی متعصب علماءبھی اس مرض میں گرفتار ہیں۔ الا ما شاءاللہ۔ کہ یہودی جب میرے اسلام کا حال سنیں گے تو پہلے ہی برا کہیں گے تو آپ نے سن لیا ان کی بے ایمانی معلوم ہو گئی پہلے تو تعریف کی جب اپنے مطلب کے خلاف ہوا تو لگے برائی کرنے ۔ بے ایمانوں کا یہی شیوہ ہے جو شخص ان کے مشرب کے خلاف ہو وہ کتنا عالم فاضل صاحب ہنر اچھا شخص ہو لیکن اس کی برائی کرتے ہیں۔ اب تو ہر جگہ یہ آفت پھیل گئی ہے کہ اگر کوئی عالم فاضل شخص علمائے سوءکا ایک مسئلہ میں اختلاف کرے تو بس اس کے سارے فضائل اور کمالات کو ایک طرف ڈال کر اس کے دشمن بن جاتے ہیں جو ادبار وتنزل کی نشانی ہے ۔ اکثر فقہی متعصب علماءبھی اس مرض میں گرفتار ہیں۔ الا ما شاءاللہ۔