‌صحيح البخاري - حدیث 3936

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺاللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَمَرْثِيَتِهِ لِمَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ عَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ مَرَضٍ أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَلَغَ بِي مِنْ الْوَجَعِ مَا تَرَى وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي وَاحِدَةٌ أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي قَالَ لَا قَالَ فَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ قَالَ الثُّلُثُ يَا سَعْدُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ ذُرِّيَّتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَلَسْتَ بِنَافِقٍ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا آجَرَكَ اللَّهُ بِهَا حَتَّى اللُّقْمَةَ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي قَالَ إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً وَلَعَلَّكَ تُخَلَّفُ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُوُفِّيَ بِمَكَّةَ وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ وَمُوسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3936

کتاب: انصار کے مناقب باب: نبی کریم ﷺ کی دعا کہ اے اللہ ! میرے اصحاب کی ہجرت قائم رکھ اور جومہاجر مکہ میں انتقال کر گئے ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے زہری نے ، ان سے عامر بن سعد بن مالک نے اور ان سے ان کے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع ۰۱ھ کے موقع پر میری مزاج پرسی کے لئے تشریف لائے ۔ اس مرض میں میرے بچنے کی کوئی امید نہیں رہی تھی ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مرض کی شدت آپ خود ملاحظہ فرمارہے ہیں ، میرے پاس مال بہت ہے اور صرف میری ایک لڑکی وارث ہے تو کیا میں اپنے دوتہائی مال کا صدقہ کردوں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔ میںنے عرض کیا پھر آدھے کا کردوں ؟ فرمایا کہ سعد ! بس ایک تہائی کا کردو ، یہ بھی بہت ہے ۔ آدمی اگر اپنی اولاد کو مال دار چھوڑ کر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑے اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ احمد بن یونس نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم بن سعد نے کہ ” تم اپنی اولاد کو چھوڑ کر جو کچھ بھی خرچ کروگے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی مقصود ہو گی تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا ثواب دے گا ، اللہ تمہیں اس لقمہ پر بھی ثواب دے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالوگے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے مکہ میں رہ جاؤںگا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پیچھے نہیں رہو گے اور تم جو بھی عمل کروگے اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہو گی تو تمہارا مرتبہ اس کی وجہ سے بلند ہو تا رہے گا اور شاید تم ابھی بہت دنوں تک زندہ رہو گے تم سے بہت سے لوگوں ( مسلمانوں ) کو نفع پہنچے گا اور بہتوں کو ( غیرمسلموں کو ) نقصان ہوگا اے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت پوری کردے اور انہیں الٹے پاؤں واپس نہ کر ( کہ وہ ہجرت کو چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس آجائیں ) البتہ سعد بن خولہ نقصان میں پڑگئے اور احمد بن یونس اور موسیٰ بن اسماعیل نے اس حدیث کو ابراہیم بن سعد سے روایت کیا اس میں ( اپنی اولاد ( ذریت کو چھوڑ و ، کے بجائے ) تم اپنے وارثوں کو چھوڑو یہ الفاظ مروی ہیں ۔
تشریح : حجۃ الوداع میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے اور بیماری شدت پکڑ گئی تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زندگی سے مایوس ہو کر اپنے ترکہ کے بارے میں مسائل معلوم کئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسائل سمجھائے اور ساتھ ہی تسلی دلائی کہ ابھی تم عرصہ تک زندہ رہو گے اور ایسا ہی ہوا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بعد میں چالیس سال زندہ رہے عراق فتح کیا اور بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہو ئے ان کے بہت سے لڑکے بھی پیداہوئے ۔ حدیث پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کو تنگ دست مفلس قلاش بننے کی بجائے زیادہ سے زیادہ حلال طور پر کما کر دولت مند بننے کی تعلیم دیتا ہے اور بزور رغبت دلاتا ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو غربت تنگ دستی کی حالت میں چھوڑ کر انتقال نہ کریں یعنی پہلے سے ہی محنت و مشقت کرکے افلاس کا مقابلہ کریں۔ ضرور ایسی ترقی کریں کہ مرنے کے بعد ان کی اولاد تنگ دستی محتا جگی افلاس کی شکار نہ ہو۔ اسی لئے حضرت امام سعید بن مسیب مشہور محدث فرماتے ہیں لا خیر فی من لا یرید جمع المال من حلہ یکف بہ وجھہ عن الناس ویصل بہ رحمہ ویعطی منہ حقہ ایسے شخص میں کوئی خوبی نہیں ہے جو حلال طریقہ سے مال جمع نہ کرے جس کے ذریعہ لوگوں سے اپنی آبرو کی حفاظت کرے اور خویش واقارب کی خبر گیری کرے اور اس کا حق ادا کرے۔ حضرت امام سبیعی کا قول ہے کانوا یرون السعۃ عونا علی الدین بزرگان دین خوش حالی کو دین کے لئے مدد گار خیال کرتے تھے۔ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں المال فی زماننا ھذاسلاح المومنین مال ہمارے زمانہ میں مومن کا ہھتیار ہے ( از منہاج القاصدین ص: 199 ) قرآن مجید میں زکوٰۃ کا بار بار ذکر ہی یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان مال دار ہو جو سالانہ زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ ادا کر سکے ۔ ہاں مال اگر حرام طریقہ سے جمع کیا جائے یا انسان کو اسلام اور ایمان سے غافل کر دے تو ایسا مال خدا کی طرف سے موجب لعنت ہے۔ وفقنا اللہ لما یحب ویرضی ( امین ) حجۃ الوداع میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے اور بیماری شدت پکڑ گئی تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زندگی سے مایوس ہو کر اپنے ترکہ کے بارے میں مسائل معلوم کئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسائل سمجھائے اور ساتھ ہی تسلی دلائی کہ ابھی تم عرصہ تک زندہ رہو گے اور ایسا ہی ہوا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بعد میں چالیس سال زندہ رہے عراق فتح کیا اور بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہو ئے ان کے بہت سے لڑکے بھی پیداہوئے ۔ حدیث پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کو تنگ دست مفلس قلاش بننے کی بجائے زیادہ سے زیادہ حلال طور پر کما کر دولت مند بننے کی تعلیم دیتا ہے اور بزور رغبت دلاتا ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو غربت تنگ دستی کی حالت میں چھوڑ کر انتقال نہ کریں یعنی پہلے سے ہی محنت و مشقت کرکے افلاس کا مقابلہ کریں۔ ضرور ایسی ترقی کریں کہ مرنے کے بعد ان کی اولاد تنگ دستی محتا جگی افلاس کی شکار نہ ہو۔ اسی لئے حضرت امام سعید بن مسیب مشہور محدث فرماتے ہیں لا خیر فی من لا یرید جمع المال من حلہ یکف بہ وجھہ عن الناس ویصل بہ رحمہ ویعطی منہ حقہ ایسے شخص میں کوئی خوبی نہیں ہے جو حلال طریقہ سے مال جمع نہ کرے جس کے ذریعہ لوگوں سے اپنی آبرو کی حفاظت کرے اور خویش واقارب کی خبر گیری کرے اور اس کا حق ادا کرے۔ حضرت امام سبیعی کا قول ہے کانوا یرون السعۃ عونا علی الدین بزرگان دین خوش حالی کو دین کے لئے مدد گار خیال کرتے تھے۔ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں المال فی زماننا ھذاسلاح المومنین مال ہمارے زمانہ میں مومن کا ہھتیار ہے ( از منہاج القاصدین ص: 199 ) قرآن مجید میں زکوٰۃ کا بار بار ذکر ہی یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان مال دار ہو جو سالانہ زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ ادا کر سکے ۔ ہاں مال اگر حرام طریقہ سے جمع کیا جائے یا انسان کو اسلام اور ایمان سے غافل کر دے تو ایسا مال خدا کی طرف سے موجب لعنت ہے۔ وفقنا اللہ لما یحب ویرضی ( امین )