‌صحيح البخاري - حدیث 3929

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ مَقْدَمِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ المَدِينَةَ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ أُمَّ الْعَلَاءِ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِمْ بَايَعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ طَارَ لَهُمْ فِي السُّكْنَى حِينَ اقْتَرَعَتْ الْأَنْصَارُ عَلَى سُكْنَى الْمُهَاجِرِينَ قَالَتْ أُمُّ الْعَلَاءِ فَاشْتَكَى عُثْمَانُ عِنْدَنَا فَمَرَّضْتُهُ حَتَّى تُوُفِّيَ وَجَعَلْنَاهُ فِي أَثْوَابِهِ فَدَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ أَبَا السَّائِبِ شَهَادَتِي عَلَيْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ أَكْرَمَهُ قَالَتْ قُلْتُ لَا أَدْرِي بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَنْ قَالَ أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ وَاللَّهِ الْيَقِينُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ وَمَا أَدْرِي وَاللَّهِ وَأَنَا رَسُولُ اللَّه مَا يُفْعَلُ بِي قَالَتْ فَوَاللَّهِ لَا أُزَكِّي أَحَدًا بَعْدَهُ قَالَتْ فَأَحْزَنَنِي ذَلِكَ فَنِمْتُ فَرِيتُ لِعُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ عَيْنًا تَجْرِي فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ذَلِكِ عَمَلُهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3929

کتاب: انصار کے مناقب باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ میں آنا ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، انہیں ابن شہاب نے خبردی ، انہیں خارجہ بن زید بن ثابت نے کہ ( ان کی والدہ ) ام علاءرضی اللہ عنہا ( ایک انصاری خاتون جنہوں نے نبی کریم سے بیعت کی تھی ) ، نے انہیں خبر دی کہ جب انصار نے مہاجرین کی میز بانی کے لئے قرعہ ڈالا تو عثمان بن مظعون ان کے گھرانے کے حصے میں آئے تھے ۔ ام علاءرضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر عثمان رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں بیمار پڑ گئے ۔ میں نے ان کی پوری طرح تیمار داری کی وہ نہ بچ سکے ۔ ہم نے انہیں ان کے کپڑوں میں لپیٹ دیا تھا ۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے تو میں نے کہا ابو سائب ! ( عثمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ) تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں ، میری تمہارے متعلق گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے ۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیںیہ کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے ؟ میں نے عرض کیا مجھے تو اس سلسلے میں کچھ خبر نہیں ہے ، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یارسول اللہ ! لیکن اور کسے نوازے گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں تو واقعی کوئی شک وشبہ نہیں کہ ایک یقینی امر ( موت ) ان کی آ چکی ہے ، خدا کی قسم کہ میں بھی ان کے کئے اللہ تعالیٰ سے خیر خواہی کی امید رکھتا ہوں لیکن میں حالانکہ اللہ کا رسول ہوں خود اپنے متعلق نہیں جان سکتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ۔ ام علا ءرضی اللہ عنہانے عرض کیا پھر خدا کی قسم کہ اس کے بعد میں اب کسی کے بارے میں اس کی پاکی نہیں کروں گی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس واقعہ پر مجھے بڑا رنج ہوا ۔ پھر میں سو گئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ عثمان بن مظعون کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ ہے ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان کا عمل تھا ۔
تشریح : ایک روایت میں یوں ہے کہ میں یہ نہیں جانتا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا حال کیا ہونا ہے۔ اس روایت پر تو کوئی اشکال نہیں ۔ لیکن محفوظ یہی روایت ہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا حال کیا ہونا ہے۔ جیسے قرآن شریف میں ہے وما ادری ما یفعل بی ولا بکم ( الاحقاف : 9 ) کہتے ہیں یہ آیت اور حدیث اس زمانہ کی ہے جب تک یہ آیت نہیں اتری تھی لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر ( الفتح: 2 ) اور آپ کو قطعاً یہ نہیں بتلایا گیا تھا کہ آپ سب اگلے پچھلے سے افضل ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ توجیہ عمدہ نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی بار گاہ عجب مستغنی بارگاہ ہے آدمی کیسے ہی درجہ پر پہنچ جائے مگر اس کے استغنا اور کبریائی سے بے ڈر نہیں ہو سکتا ۔ وہ ایک ایسا شہنشاہ ہے جو چاہے وہ کر ڈالے رتی برابر اسکو کسی کا اندیشہ نہیں ۔ حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری اپنے مکاتیب میں فرماتے ہیں وہ ایسا مستغنی اور بے پروا ہے کہ اگر چاہے تو سب پیغمبروں اور نیک بندوں کو دم بھرمیں دوزخی بنا دے اور سارے بد کا ر اور کفار کو بہشت میں لے جاوے کوئی دم نہیں مار سکتا ۔ آخر حدیث میں ذکر ہے کہ ان کا نیک عمل چشمہ کی صورت میں ان کے لئے ظاہر ہوا ۔ دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ خوبصورت آدمی کی شکل میں اور برے عمل بد صورت آدمی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں ہر دو حدیث برحق ہیں اور ان میں نیکوں اور بدوں کے مراتب اعمال کے مطابق کیفیات بیان کی گئی ایک روایت میں یوں ہے کہ میں یہ نہیں جانتا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا حال کیا ہونا ہے۔ اس روایت پر تو کوئی اشکال نہیں ۔ لیکن محفوظ یہی روایت ہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا حال کیا ہونا ہے۔ جیسے قرآن شریف میں ہے وما ادری ما یفعل بی ولا بکم ( الاحقاف : 9 ) کہتے ہیں یہ آیت اور حدیث اس زمانہ کی ہے جب تک یہ آیت نہیں اتری تھی لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر ( الفتح: 2 ) اور آپ کو قطعاً یہ نہیں بتلایا گیا تھا کہ آپ سب اگلے پچھلے سے افضل ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ توجیہ عمدہ نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی بار گاہ عجب مستغنی بارگاہ ہے آدمی کیسے ہی درجہ پر پہنچ جائے مگر اس کے استغنا اور کبریائی سے بے ڈر نہیں ہو سکتا ۔ وہ ایک ایسا شہنشاہ ہے جو چاہے وہ کر ڈالے رتی برابر اسکو کسی کا اندیشہ نہیں ۔ حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری اپنے مکاتیب میں فرماتے ہیں وہ ایسا مستغنی اور بے پروا ہے کہ اگر چاہے تو سب پیغمبروں اور نیک بندوں کو دم بھرمیں دوزخی بنا دے اور سارے بد کا ر اور کفار کو بہشت میں لے جاوے کوئی دم نہیں مار سکتا ۔ آخر حدیث میں ذکر ہے کہ ان کا نیک عمل چشمہ کی صورت میں ان کے لئے ظاہر ہوا ۔ دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ خوبصورت آدمی کی شکل میں اور برے عمل بد صورت آدمی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں ہر دو حدیث برحق ہیں اور ان میں نیکوں اور بدوں کے مراتب اعمال کے مطابق کیفیات بیان کی گئی