‌صحيح البخاري - حدیث 3921

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ صحيح حَدَّثَنَا أَصْبَغُ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ كَلْبٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ بَكْرٍ فَلَمَّا هَاجَرَ أَبُو بَكْرٍ طَلَّقَهَا فَتَزَوَّجَهَا ابْنُ عَمِّهَا هَذَا الشَّاعِرُ الَّذِي قَالَ هَذِهِ الْقَصِيدَةَ رَثَى كُفَّارَ قُرَيْشٍ وَمَاذَا بِالْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ مِنْ الشِّيزَى تُزَيَّنُ بِالسَّنَامِ وَمَاذَا بِالْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ مِنْ الْقَيْنَاتِ وَالشَّرْبِ الْكِرَامِ تُحَيِّينَا السَّلَامَةَ أُمُّ بَكْرٍ وَهَلْ لِي بَعْدَ قَوْمِي مِنْ سَلَامِ يُحَدِّثُنَا الرَّسُولُ بِأَنْ سَنَحْيَا وَكَيْفَ حَيَاةُ أَصْدَاءٍ وَهَامِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3921

کتاب: انصار کے مناقب باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا ، ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ بن زبیر نے ، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنو کلب کی ایک عورت ام بکر نامی سے شادی کر لی تھی ۔ پھر جب انہوں نے ہجرت کی تو اسے طلاق دے آئے ۔ اس عورت سے پھر اس کے چچا زاد بھائی ( ابو بکر شداد بن اسود ) نے شادی کر لی تھی ، یہ شخص شاعر تھا اور اسی نے یہ مشہور مرثیہ کفار قریش کے بارے میں کہا تھا ” مقام بدر کے کنوؤں کو میں کیا کہوں کہ انہوں نے ہمیں در خت شیزیٰ کے بڑے بڑے پیالوں سے محروم کردیا جو کبھی اونٹ کے کوہان کے گوشت سے بہتر ہوا کرتے تھے ، میں بدر کے کنوؤں کو کیا کہوں ! انہوں نے ہمیں گانے والی لونڈیوں اور اچھے شرابیوں سے محروم کر دیا ام بکر تو مجھے سلامتی کی دعا دیتی رہی لیکن میری قوم کی بربادی کے بعد میرے لئے سلامتی کہاں ہے یہ رسول ہمیں دوبارہ زندگی کی خبریں بیان کرتا ہے ۔ کہیں الو بن جانے کے بعد پھر زندگی کس طرح ممکن ہے ۔
تشریح : جاہلیت میں عرب کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مردے کی کھوپڑی سے روح نکل کر الو کے قالب میں جنم لیتی ہے اور دوستوں کو آواز دیتی پھر تی ہے۔ ابو بکر شداد بن اسود بہ حالت کفر بدر کے مقتولین کفار مکہ کا مرثیہ کہہ رہا ہے جس کا مطلب یہ کہ وہ لوگ بدر کے کنویں میں مرے پڑے ہیں جو لوگوں کے سامنے اونٹ کے کوہان کا گوشت جو عربوں کے نزدیک نہایت لذیذ ہوتا ہے درخت شیزیٰ کی لکڑی کے پیالوں میں بھر بھررکھا کرتے تھے ۔ شیزیٰ ایک درخت ہے جس کی لکڑی کے پیالے بناتے ہیں ۔ یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو ان پیالوں کا استعمال کرتے ہیں یعنی بڑے امیر سرمایہ دار لوگ جو رات دن شراب خوری اور ناچ رنگ گانے بجانے والیوں کی صحبت میںرہا کرتے تھے۔ مرثیہ میں مذکور ہ ام بکر اس کی بیوی ہے جو پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی ۔ آخر ی شعر کا مطلب یہ ہے کہ عرب کے لوگ جاہلیت میں سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح الو کے جسم میں جنم لیتی ہے اور الوؤں کو پکارتی پھرتی ہے شاعر کی مراد یہ ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ انسانی قالب میں زندہ ہو نے کے بارے میں پیغمبر کا کہنا غلط ہے حشر نشر کچھ نہیں ہے اور روحیں الوبن کر دوبارہ آدمی کے قالب میں کیونکر آسکتی ہیں کافروں کا یہ عقیدہ فاسدہ ہے جس کی تردید سے قرآن مجید بھرا ہوا ہے ۔ اس مرثیہ کا منظوم تر جمہ مولانا وحید الزماں مرحوم کے لفظوں میں یہ ہے۔ گڑھے میں بدر کے کیا ہے ارے او سننے والے پڑے ہیں اونٹ کے کوہان کے عمدہ پیالے گڑھے میں بدر کے کیا ہے ارے او سننے والے شرابی ہیں وہاں گانا بجانا سننے والے سلامت رہ جو کہتی ہے مجھے یہ ام بکری کہاں ہے سلامت جب مرے سب قوم والے یہ پیغمبر ہمیں کہتا ہے تم مر کر جیو گے کہیں الو بھی پھر انساں ہوئے آواز والے شاعر مذکور کے بارے میں منقول ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا تھا بعد میں مرتد ہو گیا۔ لفظ ھامۃ تخفیف میم کے ساتھ ہے عرب جاہلیت کا اعتقاد تھا کہ مقتول جنگی کا قصاص نہ لیا جائے تو اس کی روح الو کے جسم میں جنم لے کر اپنی قبر پر روزانہ آکر یہ کہتی ہے کہ میرے قاتل کا خون مجھ کو پلاؤ جب اس کا قصاص لے لیا جاتاہے تو وہ اڑجاتی ہے۔ ( قسطلانی ) جاہلیت میں عرب کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مردے کی کھوپڑی سے روح نکل کر الو کے قالب میں جنم لیتی ہے اور دوستوں کو آواز دیتی پھر تی ہے۔ ابو بکر شداد بن اسود بہ حالت کفر بدر کے مقتولین کفار مکہ کا مرثیہ کہہ رہا ہے جس کا مطلب یہ کہ وہ لوگ بدر کے کنویں میں مرے پڑے ہیں جو لوگوں کے سامنے اونٹ کے کوہان کا گوشت جو عربوں کے نزدیک نہایت لذیذ ہوتا ہے درخت شیزیٰ کی لکڑی کے پیالوں میں بھر بھررکھا کرتے تھے ۔ شیزیٰ ایک درخت ہے جس کی لکڑی کے پیالے بناتے ہیں ۔ یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو ان پیالوں کا استعمال کرتے ہیں یعنی بڑے امیر سرمایہ دار لوگ جو رات دن شراب خوری اور ناچ رنگ گانے بجانے والیوں کی صحبت میںرہا کرتے تھے۔ مرثیہ میں مذکور ہ ام بکر اس کی بیوی ہے جو پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی ۔ آخر ی شعر کا مطلب یہ ہے کہ عرب کے لوگ جاہلیت میں سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح الو کے جسم میں جنم لیتی ہے اور الوؤں کو پکارتی پھرتی ہے شاعر کی مراد یہ ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ انسانی قالب میں زندہ ہو نے کے بارے میں پیغمبر کا کہنا غلط ہے حشر نشر کچھ نہیں ہے اور روحیں الوبن کر دوبارہ آدمی کے قالب میں کیونکر آسکتی ہیں کافروں کا یہ عقیدہ فاسدہ ہے جس کی تردید سے قرآن مجید بھرا ہوا ہے ۔ اس مرثیہ کا منظوم تر جمہ مولانا وحید الزماں مرحوم کے لفظوں میں یہ ہے۔ گڑھے میں بدر کے کیا ہے ارے او سننے والے پڑے ہیں اونٹ کے کوہان کے عمدہ پیالے گڑھے میں بدر کے کیا ہے ارے او سننے والے شرابی ہیں وہاں گانا بجانا سننے والے سلامت رہ جو کہتی ہے مجھے یہ ام بکری کہاں ہے سلامت جب مرے سب قوم والے یہ پیغمبر ہمیں کہتا ہے تم مر کر جیو گے کہیں الو بھی پھر انساں ہوئے آواز والے شاعر مذکور کے بارے میں منقول ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا تھا بعد میں مرتد ہو گیا۔ لفظ ھامۃ تخفیف میم کے ساتھ ہے عرب جاہلیت کا اعتقاد تھا کہ مقتول جنگی کا قصاص نہ لیا جائے تو اس کی روح الو کے جسم میں جنم لے کر اپنی قبر پر روزانہ آکر یہ کہتی ہے کہ میرے قاتل کا خون مجھ کو پلاؤ جب اس کا قصاص لے لیا جاتاہے تو وہ اڑجاتی ہے۔ ( قسطلانی )