‌صحيح البخاري - حدیث 3915

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا عَوْفٌ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هَلْ تَدْرِي مَا قَالَ أَبِي لِأَبِيكَ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَإِنَّ أَبِي قَالَ لِأَبِيكَ يَا أَبَا مُوسَى هَلْ يَسُرُّكَ إِسْلَامُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِجْرَتُنَا مَعَهُ وَجِهَادُنَا مَعَهُ وَعَمَلُنَا كُلُّهُ مَعَهُ بَرَدَ لَنَا وَأَنَّ كُلَّ عَمَلٍ عَمِلْنَاهُ بَعْدَهُ نَجَوْنَا مِنْهُ كَفَافًا رَأْسًا بِرَأْسٍ فَقَالَ أَبِي لَا وَاللَّهِ قَدْ جَاهَدْنَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّيْنَا وَصُمْنَا وَعَمِلْنَا خَيْرًا كَثِيرًا وَأَسْلَمَ عَلَى أَيْدِينَا بَشَرٌ كَثِيرٌ وَإِنَّا لَنَرْجُو ذَلِكَ فَقَالَ أَبِي لَكِنِّي أَنَا وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرَ بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ بَرَدَ لَنَا وَأَنَّ كُلَّ شَيْءٍ عَمِلْنَاهُ بَعْدُ نَجَوْنَا مِنْهُ كَفَافًا رَأْسًا بِرَأْسٍ فَقُلْتُ إِنَّ أَبَاكَ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِنْ أَبِي

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3915

کتاب: انصار کے مناقب باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا ہم سے یحییٰ بن بشر نے بیان کیا ، کہا ہم سے روح نے بیان کیا ، ان سے عوف نے بیان کیا ، ان سے معاویہ بن قرہ نے بیان کیا کہ مجھ سے ابو بردہ بن موسیٰ اشعری نے بیان کیا ، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا ۔ کیا تم کو معلوم ہے کہ میرے والد عمر رضی اللہ عنہ نے تمہارے والد ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو کیا جواب دیا تھا ، انہوں نے کہا نہیں ، تو عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ میرے والد نے تمہارے والد سے کہا اے ابو موسیٰ ! کیا تم اس پر راضی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا اسلام ، آپ کے ساتھ ہماری ہجرت ، آپ کے ساتھ ہمارا تمام عمل جوہم نے آپ کی زندگی میں کئے ہیں ان کے بدلہ میں ہم اپنے ان اعمال سے نجات پا جائیں جو ہم نے آپ کے بعد کئے ہیں گو وہ نیک بھی ہوں بس برابری پر معاملہ ختم ہو جائے ۔ اس پر آپ کے والد نے میرے والد سے کہا خدا کی قسم ! میں اس پر راضی نہیں ہوں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جہاد کیا ، نمازیں پڑھیں ، روزے رکھے اور بہت سے اعمال خیر کئے اور ہمارے ہاتھ پر ایک مخلوق نے اسلام قبول کیا ، ہم تو اس کے ثواب کی بھی امید رکھتے ہیں اس پر میرے والد نے کہا ( خیر ابھی تم سمجھو ) لیکن جہاں تک میرا سوال ہے تو اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری خواہش ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئے ہوئے ہمارے اعمال محفوظ رہے ہوں اور جتنے اعمال ہم نے آپ کے بعد کئے ہیں ان سب سے اس کے بدلہ میں ہم نجات پا جائیں اور برابر پر معاملہ ختم ہوجائے ۔ ابو بردہ کہتے ہیں اس پر میں نے کہا اللہ کی قسم آپ کے والد ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ ) میرے والد ( ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ) سے بہتر تھے ۔
تشریح : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ نہ ان کا ثواب ملے اور نہ ان کی وجہ سے عذاب ہو یہ آپ کی بے انتہا خدا ترسی اور احتیاط تھی ان کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو اعمال خیر ہم نے کئے ہیں ان پر ہم کو پورا بھروسا نہیں وہ بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئے یا نہیں ہماری نیت ان میں خالص تھی یا نہیں تو ہم اسی کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو اعمال ہم نے کئے ہیں ان کا تو ثواب ہم کو مل جائے نجات کےلئے وہی اعمال کافی ہیں اور آپ کے بعد جو اعمال ہیں ان میں ہم کو کوئی مواخذہ نہ ہو ثواب نہ سہی یہ بھی غنیمت ہے کہ عذاب نہ ہو ۔ کیونکہ خوف کا مقام رجاءکے مقام سے اعلیٰ ہے مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس باب میں بھی ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے افضل تھے ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی افضیلت مطلقہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پر تو بالاتفاق ثابت ہے ۔ حافظ نے کہا کبھی مفضول کو بھی ایک خاص مقدمہ میں فاضل پر افضلیت ہوتی ہے اور اس سے افضلیت مطلقہ لازم نہیں آتی اور حضرت عمر رضی اللہ کا یہ فرمانا کسر نفس اور تواضع اور خوف الٰہی سے تھا ورنہ ان کا ایک ایک عمل اور ایک ایک عدل اور انصاف ہمارے تمام عمر کے نیک اعمال سے کہیں زیادہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے اگر کوئی منصف آدمی گو وہ کسی مذہب کا ہو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سوانح عمری پر نظر ڈالے تو اس کو بلا شبہ یہ معلوم ہو جائے گا کہ ما در گیتی نے ایسا فرزند بہت ہی کم جنا ہے۔ اور مسلمانوں میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آج تک کوئی ایسا مدبر منتظم عادل خدا پرست خدا ترس رعیت پر ور حاکم پیدا نہیں ہوا ۔ معلوم نہیں رافضیوں کی عقل کہاں تشریف لے گئی ہے کہ وہ ایسے جوہر نفیس کو جس کی ذات سے اسلام اور مسلمانوں کا شرف ہے مطعون کرتے ہیں ۔ خدا سمجھے اس کا خمیازہ مرتے ہی ان کومعلوم ہو جائے گا۔ ( وحیدی ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ نہ ان کا ثواب ملے اور نہ ان کی وجہ سے عذاب ہو یہ آپ کی بے انتہا خدا ترسی اور احتیاط تھی ان کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو اعمال خیر ہم نے کئے ہیں ان پر ہم کو پورا بھروسا نہیں وہ بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئے یا نہیں ہماری نیت ان میں خالص تھی یا نہیں تو ہم اسی کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو اعمال ہم نے کئے ہیں ان کا تو ثواب ہم کو مل جائے نجات کےلئے وہی اعمال کافی ہیں اور آپ کے بعد جو اعمال ہیں ان میں ہم کو کوئی مواخذہ نہ ہو ثواب نہ سہی یہ بھی غنیمت ہے کہ عذاب نہ ہو ۔ کیونکہ خوف کا مقام رجاءکے مقام سے اعلیٰ ہے مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس باب میں بھی ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے افضل تھے ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی افضیلت مطلقہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پر تو بالاتفاق ثابت ہے ۔ حافظ نے کہا کبھی مفضول کو بھی ایک خاص مقدمہ میں فاضل پر افضلیت ہوتی ہے اور اس سے افضلیت مطلقہ لازم نہیں آتی اور حضرت عمر رضی اللہ کا یہ فرمانا کسر نفس اور تواضع اور خوف الٰہی سے تھا ورنہ ان کا ایک ایک عمل اور ایک ایک عدل اور انصاف ہمارے تمام عمر کے نیک اعمال سے کہیں زیادہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے اگر کوئی منصف آدمی گو وہ کسی مذہب کا ہو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سوانح عمری پر نظر ڈالے تو اس کو بلا شبہ یہ معلوم ہو جائے گا کہ ما در گیتی نے ایسا فرزند بہت ہی کم جنا ہے۔ اور مسلمانوں میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آج تک کوئی ایسا مدبر منتظم عادل خدا پرست خدا ترس رعیت پر ور حاکم پیدا نہیں ہوا ۔ معلوم نہیں رافضیوں کی عقل کہاں تشریف لے گئی ہے کہ وہ ایسے جوہر نفیس کو جس کی ذات سے اسلام اور مسلمانوں کا شرف ہے مطعون کرتے ہیں ۔ خدا سمجھے اس کا خمیازہ مرتے ہی ان کومعلوم ہو جائے گا۔ ( وحیدی )