‌صحيح البخاري - حدیث 3911

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ وَهُوَ مُرْدِفٌ أَبَا بَكْرٍ وَأَبُو بَكْرٍ شَيْخٌ يُعْرَفُ وَنَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَابٌّ لَا يُعْرَفُ قَالَ فَيَلْقَى الرَّجُلُ أَبَا بَكْرٍ فَيَقُولُ يَا أَبَا بَكْرٍ مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْكَ فَيَقُولُ هَذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي السَّبِيلَ قَالَ فَيَحْسِبُ الْحَاسِبُ أَنَّهُ إِنَّمَا يَعْنِي الطَّرِيقَ وَإِنَّمَا يَعْنِي سَبِيلَ الْخَيْرِ فَالْتَفَتَ أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هُوَ بِفَارِسٍ قَدْ لَحِقَهُمْ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا فَارِسٌ قَدْ لَحِقَ بِنَا فَالْتَفَتَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اللَّهُمَّ اصْرَعْهُ فَصَرَعَهُ الْفَرَسُ ثُمَّ قَامَتْ تُحَمْحِمُ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مُرْنِي بِمَا شِئْتَ قَالَ فَقِفْ مَكَانَكَ لَا تَتْرُكَنَّ أَحَدًا يَلْحَقُ بِنَا قَالَ فَكَانَ أَوَّلَ النَّهَارِ جَاهِدًا عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ آخِرَ النَّهَارِ مَسْلَحَةً لَهُ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَانِبَ الْحَرَّةِ ثُمَّ بَعَثَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَاءُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ فَسَلَّمُوا عَلَيْهِمَا وَقَالُوا ارْكَبَا آمِنَيْنِ مُطَاعَيْنِ فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَحَفُّوا دُونَهُمَا بِالسِّلَاحِ فَقِيلَ فِي الْمَدِينَةِ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشْرَفُوا يَنْظُرُونَ وَيَقُولُونَ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ فَأَقْبَلَ يَسِيرُ حَتَّى نَزَلَ جَانِبَ دَارِ أَبِي أَيُّوبَ فَإِنَّهُ لَيُحَدِّثُ أَهْلَهُ إِذْ سَمِعَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ وَهُوَ فِي نَخْلٍ لِأَهْلِهِ يَخْتَرِفُ لَهُمْ فَعَجِلَ أَنْ يَضَعَ الَّذِي يَخْتَرِفُ لَهُمْ فِيهَا فَجَاءَ وَهِيَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ بُيُوتِ أَهْلِنَا أَقْرَبُ فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَذِهِ دَارِي وَهَذَا بَابِي قَالَ فَانْطَلِقْ فَهَيِّئْ لَنَا مَقِيلًا قَالَ قُومَا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ فَلَمَّا جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَّكَ جِئْتَ بِحَقٍّ وَقَدْ عَلِمَتْ يَهُودُ أَنِّي سَيِّدُهُمْ وَابْنُ سَيِّدِهِمْ وَأَعْلَمُهُمْ وَابْنُ أَعْلَمِهِمْ فَادْعُهُمْ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ فَإِنَّهُمْ إِنْ يَعْلَمُوا أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ قَالُوا فِيَّ مَا لَيْسَ فِيَّ فَأَرْسَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلُوا فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ وَيْلَكُمْ اتَّقُوا اللَّهَ فَوَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا وَأَنِّي جِئْتُكُمْ بِحَقٍّ فَأَسْلِمُوا قَالُوا مَا نَعْلَمُهُ قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَهَا ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ فَأَيُّ رَجُلٍ فِيكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ قَالُوا ذَاكَ سَيِّدُنَا وَابْنُ سَيِّدِنَا وَأَعْلَمُنَا وَابْنُ أَعْلَمِنَا قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ قَالُوا حَاشَى لِلَّهِ مَا كَانَ لِيُسْلِمَ قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ قَالُوا حَاشَى لِلَّهِ مَا كَانَ لِيُسْلِمَ قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ قَالُوا حَاشَى لِلَّهِ مَا كَانَ لِيُسْلِمَ قَالَ يَا ابْنَ سَلَامٍ اخْرُجْ عَلَيْهِمْ فَخَرَجَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ اتَّقُوا اللَّهَ فَوَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَّهُ جَاءَ بِحَقٍّ فَقَالُوا كَذَبْتَ فَأَخْرَجَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3911

کتاب: انصار کے مناقب باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا ، کہا مجھ سے میرے باپ عبدالوارث نے بیان کیا ، ان سے عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بوڑھے ہو گئے تھے اور ان کو لوگ پہچانتے بھی تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی جوان معلوم ہوتے تھے اور آپ کو لوگ عام طور سے پہچانتے بھی نہ تھے ۔ بیان کیاکہ اگر رستہ میں کوئی ملتا اور پوچھتا کہ اے ابوبکر ! یہ تمہارے ساتھ کون صاحب ہیں ؟ تو آپ جواب دیتے کہ یہ میرے ہادی ہیں ، مجھے راستہ بتاتے ہیں پوچھنے والا یہ سمجھتا کہ مدینہ کا راستہ بتلانے والا ہے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مطلب اس کلام سے یہ تھا کہ آپ دین وایمان کا راستہ بتلاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے مڑے تو ایک سوار نظر آیا جو ان کے قریب آچکا تھا ۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ سوار آگیا اور اب ہمارے قریب ہی پہنچنے والا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے مڑ کر دیکھا اور دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اسے گرادے چنانچہ گھوڑی نے اسے گرادیا ۔ پھر جب وہ ہنہناتی ہوئی اٹھی تو سوار ( سراقہ ) نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی جگہ کھڑا رہ اور دیکھ کسی کو ہماری طرف نہ آنے دینا ۔ راوی نے بیان کیا کہ وہی شخص جو صبح آپ کے خلاف تھا شام جب ہوئی تو آپ کا وہ ہتھیار تھا دشمن کو آپ سے روکنے لگا ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم ( مدینہ پہنچ کر ) حرہ کے قریب اترے اور انصار کو بلابھیجا ۔ اکابر انصار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں کو سلام کیا اور عرض کیا آپ سوار ہو جائیں آپ کی حفاظت اور فرمانبرداری کی جائے گی ، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سوار ہو گئے اور ہتھیار بند انصار نے آپ دونوں کو حلقہ میں لے لیا ۔ اتنے میں مدینہ میں بھی سب کو معلوم ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا چکے ہیں سب لوگ آپ کو دیکھنے کے لئے بلندی پر چڑھ گئے اور کہنے لگے کہ اللہ کے نبی آگئے ۔ اللہ کے نبی آگئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف چلتے رہے اور ( مدینہ پہنچ کر ) حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کے گھرکے پاس سواری سے اتر گئے ۔ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ( ایک یہودی عالم نے ) اپنے گھر والوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنا ، وہ اس وقت اپنے ایک کھجور کے باغ میں تھے اور کھجور جمع کر رہے تھے انہوں نے ( سنتے ہی ) بڑی جلدی کے ساتھ جو کچھ کھجور جمع کر چکے تھے اسے رکھ دینا چاہا جب آپ کی خدمت میں وہ حاضر ہوئے تو جمع شدہ کھجوریں ان کے ساتھ ہی تھیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اپنے گھر واپس چلے آئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے ( نانہالی ) اقارب میں کس کا گھر یہاں سے زیادہ قریب ہے ؟ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرا اے اللہ کے نبی ! یہ میرا گھر ہے اور یہ اس کا دروازہ ہے فرمایا ( اچھا تو جاؤ ) دوپہر کو آرام کر نے کی جگہ ہمارے لئے درست کرو ہم دوپہر کو وہیں آرام کر یں گے ۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا پھر آپ دونوں تشریف لے چلیں ، اللہ مبارک کرے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے گھر میں داخل ہوئے تھے کہ عبداللہ بن سلام بھی آگئے اور کہا کہ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلیاللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ آپ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں ، اور یہودی میرے متعلق اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا سردار ہوں اور ان کے سردار کا بیٹا ہوں اور ان میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور ان کے سب سے بڑے عالم کا بیٹا ہوں ، اس لئے آپ اس سے پہلے کہ میرے اسلام لانے کا خیال انہیں معلوم ہو ، بلایئے اور ان سے میرے بارے میں دریافت فرما یئے ، کیونکہ انہیں اگر معلوم ہو گیا کہ میں اسلام لاچکا ہوں تو میرے متعلق غلط باتیں کہنی شروع کردیں گے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا اور جب وہ آپ کی خدمت حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا اے یہودیو ! افسوس تم پر ، اللہ سے ڈرو ، اس ذات کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول بر حق ہوں اور یہ بھی کہ میں تمہارے پاس حق لے کر آیا ہوں ، پھر اب اسلام میں داخل ہو جاؤ ، انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح تین مرتبہ کہا ۔ پھر آپ نے فرمایا ۔ اچھا عبد اللہ بن سلام تم میں کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے کہا ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ، ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے اور ہمارےسب سے بڑے عالم کے بیٹے ، آپ نے فرمایا اگر وہ اسلام لے آئیں ۔ پھر تمہار ا کیا خیال ہو گا ۔ کہنے لگے اللہ ان کی حفاظت کرے ، وہ اسلام کیو ں لانے لگے ۔ آپ نے فرمایا ابن سلام ! اب ان کے سامنے آجاؤ ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ باہر آگئے اور کہا اے یہود ! خدا سے ڈرو اس اللہ کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں تمہیں خوب معلوم ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ آپ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں ۔ یہودیوں نے کہا تم جھوٹے ہو ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے باہر چلے جانے کے لئے فرمایا ۔
تشریح : نوٹ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ سے دو سال کئی مہینے عمر میں بڑے تھے لیکن اس وقت تک آپ کے بال سیاہ تھے اس لئے معلوم ہوتا تھا کہ آپ نوجوان ہیں لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی داڑھی کے بال کافی سفید ہو چکے تھے ۔ راوی نے اسی کی تعبیر بیان کی ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ چونکہ تاجر تھے اوراکثر اطراف عرب کا سفر کرتے رہتے تھے اس لئے لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو پہچانتے تھے۔ حدیث مذکور میں واقعہ ہجرت سے متعلق چند امور بیان کئے گئے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 27 صفر13 نبوی روز پنج شنبہ مطابق12 ستمبر622ءمکۃ المکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے سفر شروع فرمایا مکہ سے چند میل فاصلہ پر کوہ ثور ہے ابتدا ءمیں آپ نے اپنے سفر میں قیام کے لئے اسی پہاڑ کے ایک غار کو منتخب فرمایا جہاں تین راتوں تک آپ نے قیام فرمایا۔ اس کے بعد یکم ربیع الاول روز دو شنبہ مطابق 16 ستمبر622 ءمیں آپ مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے راستے میں بہت سے موا فق اور نا موافق حالات پیش آئے مگر آپ بفضلہ تعالیٰ ایک ہفتہ کے سفر کے بعد خیریت وعافیت کے ساتھ8 ربیع الاول13نبوی روز دوشنبہ مطابق 23 ستمبر622 ء مدینہ کے متصل ایک بستی قبا نامی میں پہنچ گئے اور پنج شنبہ تک یہاں آرام فرمایا اس دوران میں آپ نے یہاں مسجد قبا کی بنیاد ڈالی12ربیع الاول 1 ھ جمعہ کے دن آپ قبا سے روانہ ہو کر بنو سالم کے گھروں تک پہنچے تھے کہ جمعہ کا وقت ہو گیا اور آپ نے یہاں سو مسلمانوں کے ساتھ جمعہ ادا کیا جو اسلام میں پہلا جمعہ تھا جمعہ سے فارغ ہو کر آپ یثرب کے جنوبی جانب سے شہر میں داخل ہوئے اور آج شہر یثرب مدینہ النبی کے نا م سے موسوم ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے جو کچھ فرمایا وہ ان پیش گوئیوں کی بنا پر تھا جو توراۃ میں موجود تھیں چنانچہ حبقوق نبی کی کتاب باب 3درس 3 میں لکھا ہوا تھا کہ اللہ جنوب سے اور وہ جوقدوس ہے کوہ فاراں سے آیا اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی یہاں مدینہ کے داخلہ پر یہ اشارے ہیں۔ کتاب بسویا 42 باب 11 میں ہے کہ سلع کے باشندے ایک گیت گائیں گے۔ یہ گیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر گایا گیا۔ مدینہ کا نام پہلے انبیاءکی کتابوں میں سلع ہے ۔ جنگ خندق میں مسلمانوں نے جس جگہ خندق کھودی تھی وہاں ایک پہاڑی کا نام جبل سلع مدینہ والوں کی زبان پر عام مروج تھا ۔ ان ہی پیش گوئیوں کی بنا پر حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول فرما لیا ۔ ترمذی کی روایت کے مطابق عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام پاک آپ کے لفظوں میں سنا تھا جس کے سنتے ہی وہ اسلام کے شید ا بن گئے۔ یا ایھا الناس افشوا السلام واطعموا الطعام وصلوا الا رحام وصلوا باللیل والناس نیام تدخلوا الجنۃ بسلام یعنی ” اے لوگو! امن وسلامتی پھیلاؤ اور کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات میں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھو ۔ ان عملوں کے نتیجہ میں تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے ، “ اولین میزبان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بڑے ہی خوش نصیب ہیں جن کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا ۔ عمر میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ دو سال چھوٹے تھے مگر ان پربڑھاپا غالب آگیا تھا۔ بال سفید ہو گئے تھے۔ وہ اکثر اطراف عرب میں بہ سلسلہ تجارت سفر بھی کیا کرتے تھے اس لئے لوگ ان سے زیادہ واقف تھے۔ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بنو نجار میں سے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کی ماں اسی خاندان سے تھیں اس لئے یہ قبیلہ آپ کا نانہال قرار پایا۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا نام خالد بن زید بن کلیب انصاری ہے۔ آپ کی وفات 51ھ میں قسطنطنیہ میں ہوئی اور یہ اس وقت یزید بن معاویہ کے ساتھ تھے۔ جب کہ ان کے والد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قسطنطنیہ میں جہاد کر رہے تھے تو ان کے ساتھ نکلے اور بیمار ہو گئے ۔ جب بیماری نے زور پکڑا تو اپنے ساتھیوں کو وصیت فرمائی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازے کو اٹھا لینا پھر جب تم دشمن کے سامنے صف بستہ ہو جاؤ تو مجھے اپنے قدموں کے نیچے دفن کر دینا۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ آپ کی قبر قسطنطنیہ کی چار دیواری کے قریب ہے جو آج تک مشہور ہے ۔ نوٹ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ سے دو سال کئی مہینے عمر میں بڑے تھے لیکن اس وقت تک آپ کے بال سیاہ تھے اس لئے معلوم ہوتا تھا کہ آپ نوجوان ہیں لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی داڑھی کے بال کافی سفید ہو چکے تھے ۔ راوی نے اسی کی تعبیر بیان کی ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ چونکہ تاجر تھے اوراکثر اطراف عرب کا سفر کرتے رہتے تھے اس لئے لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو پہچانتے تھے۔ حدیث مذکور میں واقعہ ہجرت سے متعلق چند امور بیان کئے گئے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 27 صفر13 نبوی روز پنج شنبہ مطابق12 ستمبر622ءمکۃ المکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے سفر شروع فرمایا مکہ سے چند میل فاصلہ پر کوہ ثور ہے ابتدا ءمیں آپ نے اپنے سفر میں قیام کے لئے اسی پہاڑ کے ایک غار کو منتخب فرمایا جہاں تین راتوں تک آپ نے قیام فرمایا۔ اس کے بعد یکم ربیع الاول روز دو شنبہ مطابق 16 ستمبر622 ءمیں آپ مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے راستے میں بہت سے موا فق اور نا موافق حالات پیش آئے مگر آپ بفضلہ تعالیٰ ایک ہفتہ کے سفر کے بعد خیریت وعافیت کے ساتھ8 ربیع الاول13نبوی روز دوشنبہ مطابق 23 ستمبر622 ء مدینہ کے متصل ایک بستی قبا نامی میں پہنچ گئے اور پنج شنبہ تک یہاں آرام فرمایا اس دوران میں آپ نے یہاں مسجد قبا کی بنیاد ڈالی12ربیع الاول 1 ھ جمعہ کے دن آپ قبا سے روانہ ہو کر بنو سالم کے گھروں تک پہنچے تھے کہ جمعہ کا وقت ہو گیا اور آپ نے یہاں سو مسلمانوں کے ساتھ جمعہ ادا کیا جو اسلام میں پہلا جمعہ تھا جمعہ سے فارغ ہو کر آپ یثرب کے جنوبی جانب سے شہر میں داخل ہوئے اور آج شہر یثرب مدینہ النبی کے نا م سے موسوم ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے جو کچھ فرمایا وہ ان پیش گوئیوں کی بنا پر تھا جو توراۃ میں موجود تھیں چنانچہ حبقوق نبی کی کتاب باب 3درس 3 میں لکھا ہوا تھا کہ اللہ جنوب سے اور وہ جوقدوس ہے کوہ فاراں سے آیا اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی یہاں مدینہ کے داخلہ پر یہ اشارے ہیں۔ کتاب بسویا 42 باب 11 میں ہے کہ سلع کے باشندے ایک گیت گائیں گے۔ یہ گیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر گایا گیا۔ مدینہ کا نام پہلے انبیاءکی کتابوں میں سلع ہے ۔ جنگ خندق میں مسلمانوں نے جس جگہ خندق کھودی تھی وہاں ایک پہاڑی کا نام جبل سلع مدینہ والوں کی زبان پر عام مروج تھا ۔ ان ہی پیش گوئیوں کی بنا پر حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول فرما لیا ۔ ترمذی کی روایت کے مطابق عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام پاک آپ کے لفظوں میں سنا تھا جس کے سنتے ہی وہ اسلام کے شید ا بن گئے۔ یا ایھا الناس افشوا السلام واطعموا الطعام وصلوا الا رحام وصلوا باللیل والناس نیام تدخلوا الجنۃ بسلام یعنی ” اے لوگو! امن وسلامتی پھیلاؤ اور کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات میں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھو ۔ ان عملوں کے نتیجہ میں تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے ، “ اولین میزبان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بڑے ہی خوش نصیب ہیں جن کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا ۔ عمر میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ دو سال چھوٹے تھے مگر ان پربڑھاپا غالب آگیا تھا۔ بال سفید ہو گئے تھے۔ وہ اکثر اطراف عرب میں بہ سلسلہ تجارت سفر بھی کیا کرتے تھے اس لئے لوگ ان سے زیادہ واقف تھے۔ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بنو نجار میں سے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کی ماں اسی خاندان سے تھیں اس لئے یہ قبیلہ آپ کا نانہال قرار پایا۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا نام خالد بن زید بن کلیب انصاری ہے۔ آپ کی وفات 51ھ میں قسطنطنیہ میں ہوئی اور یہ اس وقت یزید بن معاویہ کے ساتھ تھے۔ جب کہ ان کے والد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قسطنطنیہ میں جہاد کر رہے تھے تو ان کے ساتھ نکلے اور بیمار ہو گئے ۔ جب بیماری نے زور پکڑا تو اپنے ساتھیوں کو وصیت فرمائی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازے کو اٹھا لینا پھر جب تم دشمن کے سامنے صف بستہ ہو جاؤ تو مجھے اپنے قدموں کے نیچے دفن کر دینا۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ آپ کی قبر قسطنطنیہ کی چار دیواری کے قریب ہے جو آج تک مشہور ہے ۔