‌صحيح البخاري - حدیث 3910

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الْإِسْلَامِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَتَوْا بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمْرَةً فَلَاكَهَا ثُمَّ أَدْخَلَهَا فِي فِيهِ فَأَوَّلُ مَا دَخَلَ بَطْنَهُ رِيقُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3910

کتاب: انصار کے مناقب باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ، ان سے ابو اسامہ نے ، ان سے ہشام بن عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ سب سے پہلا بچہ جواسلام میں ( ہجرت کے بعد ) پیدا ہوا ، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہیں ، انہیں لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور لے کر اسے چبایا پھر اس کوان کے منہ میں ڈال دیا ۔ اس لئے سب سے پہلی چیز جو ان کے پیٹ میں گئی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک تھی ۔
تشریح : حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر اسد قریشی ہیں مدینہ میں مہاجرین میں یہ سب سے پہلے بچے ہیں ۔ جو 1ھ میں پیدا ہوئے خود ان کے نانا جان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے کان میں اذان پڑھی۔ یہ بالکل صاف چہرہ والے تھے ایک بھی بال منہ پر نہیں تھا نہ ڈاڑھی تھی۔ بڑے روزے رکھنے والے اور بہت نوافل پڑھنے والے تھے موٹے تازے بڑے قوی اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ حق بات ماننے والے صلہ رحمی کرنے والے اور بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کی والدہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ ان کے نانا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ان کی دادی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں ان کی خالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں آٹھ سال کی عمرمیں ان کو شرف بیعت حاصل ہوا۔ حجاج بن یوسف ظالم نے ان کو بڑی بے رحمی کے ساتھ مکہ میں قتل کیا۔ منگل کے دن 17جمادی الثانی 73 ھ کو ان کو سولی پر لٹکایا ان کی شہادت کے بعد حجاج بن یوسف عذاب خدا وندی میں گرفتار ہوا جب بھی نیند آتی فوراً چونک کر کھڑا ہوجاتا اور کہتا عبداللہ مجھ سے انتقام لینے میرے سر پر کھڑا ہواہے۔ اس طرح بلبلا کر کچھ دنوں یہ ظالم بھی ختم ہو گیا۔ 64 ھ میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اہل حجاز یمن عراق اور خراسان کے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے بیعت خلافت کی تھی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے آٹھ حج بھی کئے تھے۔ آج اس دور کے ظالم ومظلوم لوگوں کی داستانیں باقی رہ گئیں ہیں۔ کاش ! آج کے ظالمین ان سے عبرت حاصل کریں اور آیت قرآنیہ کے فلسفہ کو سمجھنے پر توجہ دیں فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمد للہ رب العالمین ( الانعام : 45 ) حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر اسد قریشی ہیں مدینہ میں مہاجرین میں یہ سب سے پہلے بچے ہیں ۔ جو 1ھ میں پیدا ہوئے خود ان کے نانا جان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے کان میں اذان پڑھی۔ یہ بالکل صاف چہرہ والے تھے ایک بھی بال منہ پر نہیں تھا نہ ڈاڑھی تھی۔ بڑے روزے رکھنے والے اور بہت نوافل پڑھنے والے تھے موٹے تازے بڑے قوی اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ حق بات ماننے والے صلہ رحمی کرنے والے اور بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کی والدہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ ان کے نانا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ان کی دادی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں ان کی خالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں آٹھ سال کی عمرمیں ان کو شرف بیعت حاصل ہوا۔ حجاج بن یوسف ظالم نے ان کو بڑی بے رحمی کے ساتھ مکہ میں قتل کیا۔ منگل کے دن 17جمادی الثانی 73 ھ کو ان کو سولی پر لٹکایا ان کی شہادت کے بعد حجاج بن یوسف عذاب خدا وندی میں گرفتار ہوا جب بھی نیند آتی فوراً چونک کر کھڑا ہوجاتا اور کہتا عبداللہ مجھ سے انتقام لینے میرے سر پر کھڑا ہواہے۔ اس طرح بلبلا کر کچھ دنوں یہ ظالم بھی ختم ہو گیا۔ 64 ھ میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اہل حجاز یمن عراق اور خراسان کے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے بیعت خلافت کی تھی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے آٹھ حج بھی کئے تھے۔ آج اس دور کے ظالم ومظلوم لوگوں کی داستانیں باقی رہ گئیں ہیں۔ کاش ! آج کے ظالمین ان سے عبرت حاصل کریں اور آیت قرآنیہ کے فلسفہ کو سمجھنے پر توجہ دیں فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمد للہ رب العالمین ( الانعام : 45 )