‌صحيح البخاري - حدیث 3906

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ صحيح قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَالِكٍ المُدْلِجِيُّ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ سُرَاقَةَ بْنَ جُعْشُمٍ يَقُولُ: جَاءَنَا رُسُلُ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، يَجْعَلُونَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، دِيَةَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، مَنْ قَتَلَهُ أَوْ أَسَرَهُ، فَبَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ قَوْمِي بَنِي مُدْلِجٍ، أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، حَتَّى قَامَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ جُلُوسٌ، فَقَالَ يَا سُرَاقَةُ: إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ آنِفًا أَسْوِدَةً بِالسَّاحِلِ، أُرَاهَا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ، قَالَ سُرَاقَةُ: فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ هُمْ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّهُمْ لَيْسُوا بِهِمْ، وَلَكِنَّكَ رَأَيْتَ فُلاَنًا وَفُلاَنًا، انْطَلَقُوا بِأَعْيُنِنَا، ثُمَّ لَبِثْتُ فِي المَجْلِسِ سَاعَةً، ثُمَّ قُمْتُ فَدَخَلْتُ فَأَمَرْتُ جَارِيَتِي أَنْ تَخْرُجَ بِفَرَسِي، وَهِيَ مِنْ وَرَاءِ أَكَمَةٍ، فَتَحْبِسَهَا عَلَيَّ، وَأَخَذْتُ رُمْحِي، فَخَرَجْتُ بِهِ مِنْ ظَهْرِ البَيْتِ، فَحَطَطْتُ بِزُجِّهِ الأَرْضَ، وَخَفَضْتُ عَالِيَهُ، حَتَّى أَتَيْتُ فَرَسِي فَرَكِبْتُهَا، فَرَفَعْتُهَا تُقَرِّبُ بِي، حَتَّى دَنَوْتُ مِنْهُمْ، فَعَثَرَتْ بِي فَرَسِي، فَخَرَرْتُ عَنْهَا، فَقُمْتُ فَأَهْوَيْتُ يَدِي إِلَى كِنَانَتِي، فَاسْتَخْرَجْتُ مِنْهَا الأَزْلاَمَ فَاسْتَقْسَمْتُ بِهَا: أَضُرُّهُمْ أَمْ لاَ، فَخَرَجَ الَّذِي أَكْرَهُ، فَرَكِبْتُ فَرَسِي، وَعَصَيْتُ الأَزْلاَمَ، تُقَرِّبُ بِي حَتَّى إِذَا سَمِعْتُ قِرَاءَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ لاَ يَلْتَفِتُ، وَأَبُو بَكْرٍ يُكْثِرُ الِالْتِفَاتَ، سَاخَتْ يَدَا فَرَسِي فِي الأَرْضِ، حَتَّى بَلَغَتَا الرُّكْبَتَيْنِ، فَخَرَرْتُ عَنْهَا، ثُمَّ زَجَرْتُهَا فَنَهَضَتْ، فَلَمْ تَكَدْ تُخْرِجُ يَدَيْهَا، فَلَمَّا اسْتَوَتْ قَائِمَةً، إِذَا لِأَثَرِ يَدَيْهَا عُثَانٌ سَاطِعٌ فِي السَّمَاءِ مِثْلُ الدُّخَانِ، فَاسْتَقْسَمْتُ بِالأَزْلاَمِ، فَخَرَجَ الَّذِي أَكْرَهُ، فَنَادَيْتُهُمْ بِالأَمَانِ فَوَقَفُوا، فَرَكِبْتُ فَرَسِي حَتَّى جِئْتُهُمْ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي حِينَ لَقِيتُ مَا لَقِيتُ مِنَ الحَبْسِ عَنْهُمْ، أَنْ سَيَظْهَرُ أَمْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ جَعَلُوا فِيكَ الدِّيَةَ، وَأَخْبَرْتُهُمْ أَخْبَارَ مَا يُرِيدُ النَّاسُ بِهِمْ، وَعَرَضْتُ عَلَيْهِمُ الزَّادَ وَالمَتَاعَ، فَلَمْ يَرْزَآنِي وَلَمْ يَسْأَلاَنِي، إِلَّا أَنْ قَالَ: «أَخْفِ عَنَّا». فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَكْتُبَ لِي كِتَابَ أَمْنٍ، فَأَمَرَ عَامِرَ بْنَ فُهَيْرَةَ فَكَتَبَ فِي رُقْعَةٍ مِنْ أَدِيمٍ، ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَ الزُّبَيْرَ فِي رَكْبٍ مِنَ المُسْلِمِينَ، كَانُوا تِجَارًا قَافِلِينَ مِنَ الشَّأْمِ، فَكَسَا الزُّبَيْرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ ثِيَابَ بَيَاضٍ، وَسَمِعَ المُسْلِمُونَ بِالْمَدِينَةِ مَخْرَجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ، فَكَانُوا [ص:61] يَغْدُونَ كُلَّ غَدَاةٍ إِلَى الحَرَّةِ، فَيَنْتَظِرُونَهُ حَتَّى يَرُدَّهُمْ حَرُّ الظَّهِيرَةِ، فَانْقَلَبُوا يَوْمًا بَعْدَ مَا أَطَالُوا انْتِظَارَهُمْ، فَلَمَّا أَوَوْا إِلَى بُيُوتِهِمْ، أَوْفَى رَجُلٌ مِنْ يَهُودَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِهِمْ، لِأَمْرٍ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَبَصُرَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ مُبَيَّضِينَ يَزُولُ بِهِمُ السَّرَابُ، فَلَمْ يَمْلِكِ اليَهُودِيُّ أَنْ قَالَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: يَا مَعَاشِرَ العَرَبِ، هَذَا جَدُّكُمُ الَّذِي تَنْتَظِرُونَ، فَثَارَ المُسْلِمُونَ إِلَى السِّلاَحِ، فَتَلَقَّوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِ الحَرَّةِ، فَعَدَلَ بِهِمْ ذَاتَ اليَمِينِ، حَتَّى نَزَلَ بِهِمْ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَذَلِكَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الأَوَّلِ، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ لِلنَّاسِ، وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَامِتًا، فَطَفِقَ مَنْ جَاءَ مِنَ الأَنْصَارِ - مِمَّنْ لَمْ يَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُحَيِّي أَبَا بَكْرٍ، حَتَّى أَصَابَتِ الشَّمْسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى ظَلَّلَ عَلَيْهِ بِرِدَائِهِ، فَعَرَفَ النَّاسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ، فَلَبِثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، وَأُسِّسَ المَسْجِدُ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى، وَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ، فَسَارَ يَمْشِي مَعَهُ النَّاسُ حَتَّى بَرَكَتْ عِنْدَ مَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، وَهُوَ يُصَلِّي فِيهِ يَوْمَئِذٍ رِجَالٌ مِنَ المُسْلِمِينَ، وَكَانَ مِرْبَدًا لِلتَّمْرِ، لِسُهَيْلٍ وَسَهْلٍ غُلاَمَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي حَجْرِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ: «هَذَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ المَنْزِلُ». ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الغُلاَمَيْنِ فَسَاوَمَهُمَا بِالْمِرْبَدِ، لِيَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا، فَقَالاَ: لاَ، بَلْ نَهَبُهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُمَا هِبَةً حَتَّى ابْتَاعَهُ مِنْهُمَا، ثُمَّ بَنَاهُ مَسْجِدًا، وَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ اللَّبِنَ فِي بُنْيَانِهِ وَيَقُولُ، وَهُوَ يَنْقُلُ اللَّبِنَ: هَذَا الحِمَالُ لاَ حِمَالَ خَيْبَرْ، هَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطْهَرْ، وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنَّ الأَجْرَ أَجْرُ الآخِرَهْ، فَارْحَمِ الأَنْصَارَ، وَالمُهَاجِرَهْ فَتَمَثَّلَ بِشِعْرِ رَجُلٍ مِنَ المُسْلِمِينَ لَمْ يُسَمَّ لِي قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَلَمْ يَبْلُغْنَا فِي الأَحَادِيثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمَثَّلَ بِبَيْتِ شِعْرٍ تَامٍّ غَيْرَ هَذَا البَيْتِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3906

کتاب: انصار کے مناقب باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا ابن شہاب نے بیان کیا اور مجھے عبد الرحمن بن مالک مدلجی نے خبر دی ، وہ سراقہ بن مالک بن جعشم کے بھتیجے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں خبر دی اور انہوں نے سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے اور یہ پیش کش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اگر کوئی شخص قتل کر دے یا قید کر لائے تو اسے ہر ایک کے بدلے میں ایک سو اونٹ دیئے جائیں گے ۔ میں اپنی قوم بنی مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا ایک آدمی سامنے آیااور ہمارے قریب کھڑا ہو گیا ۔ ہم ابھی بےٹھے ہوئے تھے ۔ اس نے کہا سراقہ ! ساحل پر میں ابھی چند سائے دیکھ کر آرہا ہوں میرا خیال ہے کہ وہ محمد اور ان کے ساتھی ہی ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سراقہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں سمجھ گیا اس کا خیال صحیح ہے لیکن میں نے اس سے کہا کہ وہ لوگ نہیں ہیں میں نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے ہمارے سامنے سے اسی طرف گئے ہیں ۔ اس کے بعد میں مجلس میں تھوڑی دیر اور بیٹھا رہا اور پھر اٹھتے ہی گھر گیا اور لونڈی سے کہاکہ میرے گھوڑے کو لے کر ٹیلے کے پیچھے چلی جائے اور وہیں میرا انتظار کرے ، اس کے بعد میںنے اپنا نیزہ اٹھایا اور گھر کی پشت کی طرف سے باہر نکل آیا میں نیزے کی نوک سے زمین پر لکیر کھینچتا ہوا چلا گیا اور اوپر کے حصے کو چھپائے ہوئے تھا ۔ ( سراقہ یہ سب کچھ اس لئے کر رہا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو ورنہ وہ بھی میرے انعام میں شریک ہو جائے گا ) میں گھوڑے کے پاس آکر اس پر سوار ہوا اور صبا رفتاری کے ساتھ اسے لے چلا ، جتنی جلدی کے ساتھ بھی میرے لئے ممکن تھا ، آخر میں نے ان کو پا ہی لیا ۔ اسی وقت گھوڑے نے ٹھو کر کھائی اور مجھے زمین پر گرادیا ۔ لیکن میں کھڑاہو گیا اور اپنا ہاتھ ترکش کی طرف بڑھایا اس میں سے تیر نکال کر میںنے فال نکالی کہ آیا میں انہیں نقصان پہنچا سکتا ہوں یا نہیں ۔ فال ( اب بھی ) وہ نکلی جسے میں پسند نہیں کر تا تھا ۔ لیکن میں دوبارہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا اور تیروں کے فال کی پرواہ نہیں کی ۔ پھر میرا گھوڑا مجھے تیزی کے ساتھ دوڑائے لئے جارہاتھا ۔ آخر جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرا ، ت سنی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف کوئی توجہ نہیں کر رہے تھے لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بار بار مڑ کر دیکھتے تھے ، تو میرے گھوڑے کے آگے کے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے جب وہ ٹخنوں تک دھنس گیا تو میں اس کے اوپر گر پڑا اور اسے اٹھنے کےلئے ڈانٹا میں نے اسے اٹھا نے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے پاؤں زمین سے نہیں نکال سکا ۔ بڑی مشکل سے جب اس نے پوری طرح کھڑے ہو نے کی کوشش کی تو اس کے آگے کے پاؤں سے منتشر سا غبار اٹھ کر دھوئیں کی طرح آسمان کی طرف چڑھنے لگا ۔ میں نے تیروں سے فال نکالی لیکن اس مرتبہ بھی وہی فال آئی جسے میں پسند نہیں کرتا تھا ۔ اس وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امان کے لئے پکارا ۔ میری آواز پر وہ لوگ کھڑے ہو گئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا ۔ ان تک برے ارادے کے ساتھ پہنچنے سے جس طرح مجھے روک دیا گیا تھا ، اسی سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت غالب آکر رہے گی ۔ اس لئے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کے مارنے کے لئے سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کیا ہے ۔ پھر میں نے آپ کو قریش کے ارادوں کی اطلاع دی ۔ میں نے ان حضرات کی خدمت میں کچھ توشہ اور سامان پیش کیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا مجھ سے کسی اور چیز کا بھی مطالبہ نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق راز داری سے کام لینا لیکن میں نے عرض کیا کہ آپ میرے لئے ایک امن کی تحریر لکھ دیجئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک رقعہ پر تحریر امن لکھ دی ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے ۔ ابن شہاب نے بیان کیا اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو مسلمانوں کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے واپس آرہے تھے ۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سفید پوشاک پیش کی ۔ ادھر مدینہ میں بھی مسلمانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت کی اطلاع ہو چکی تھی اور یہ لوگ روزانہ صبح کو مقام حرہ تک آتے اور انتظار کرتے رہتے لیکن دوپہر کی گرمی کی وجہ سے ( دوپہر کو ) انہیں واپس جانا پڑتاتھا ایک دن جب بہت طویل انتظار کے بعد سب لوگ آگئے اور اپنے گھر پہنچ گئے تو ایک یہودی اپنے ایک محل پر کچھ دیکھنے چڑھا ۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھا سفید سفید چلے آرہے ہیں ۔ ( یا تیزی سے جلدی جلدی آرہے ہیں ) جتنا آپ نزدیک ہورہے تھے اتنی ہی دور سے پانی کی طرح ریتی کا چمکنا کم ہوتا جاتا ۔ یہودی بے اختیار چلا اٹھا کہ اے عرب کے لوگو ! تمہارے یہ بزرگ سردار آگئے جن کا تمہیں انتظار تھا ۔ مسلمان ہتھیار لےکر دوڑ پڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام حرہ پر استقبال کیا ۔ آپ نے ان کے ساتھ داہنی طرف کا راستہ اختیار کیا اور بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں قیام کیا ۔ یہ ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن تھا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں سے ملنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے رہے ۔ انصار کے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا ، وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی کو سلام کر رہے تھے ۔ لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ پڑنے لگی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیا ۔ اس وقت سب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عمرو بن عوف میں تقریباً دس راتوں تک قیام کیا اور وہ مسجد ( قبا ) جس کی بنیاد تقویٰ پر قائم ہے وہ اسی دوران میں تعمیر ہوئی اور آپ نے اس میں نماز پڑھی پھر ( جمعہ کے دن ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ پیدل روانہ ہوئے ۔ آخر آپ کی سواری مدینہ منورہ میں اس مقام پر آکر بیٹھ گئی جہاں اب مسجد نبوی ہے ۔ اس مقام پر چند مسلمان ان دنوں نماز ادا کیا کرتے تھے ۔ یہ جگہ سہیل اور سہل ( رضی اللہ عنہما ) دو یتیم بچوں کی تھی اور کھجور کا یہاں کھلیان لگتا تھا ۔ یہ دونوں بچے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی پرورش میں تھے جب آپ کی اونٹنی وہاں بیٹھ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان شاء اللہ یہی ہمارے قیام کی جگہ ہوگی ۔ اس کے بعد آپ نے دونوں یتیم بچوں کو بلایا اور ان سے اس جگہ کا معاملہ کرنا چاہا تاکہ وہاں مسجد تعمیر کی جا سکے ۔ دونوں بچوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم یہ جگہ آپ کو مفت دے دیں گے ، لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مفت طور پر قبول کرنے سے انکار کیا ۔ زمین کی قیمت ادا کرکے لے لی اور وہیں مسجد تعمیر کی ۔ اس کی تعمیر کے وقت خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ اینٹوں کے ڈھونے میں شریک تھے ۔ اینٹ ڈھوتے وقت آپ فرماتے جاتے تھے کہ ” یہ بوجھ خیبر کے بوجھ نہیں ہیں بلکہ اس کا اجر و ثواب اللہ کے یہاں باقی رہنے والا ہے اس میں بہت طہارت اور پاکی ہے “ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرما تے تھے کہ ” اے اللہ ! اجر تو بس آخرت ہی کا ہے پس ، تو انصار اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما “ اس طرح آپ نے ایک مسلمان شاعر کا شعر پڑھا جن کا نام مجھے معلوم نہیں ، ابن شہاب نے بیان کیا کہ احادیث سے ہمیں یہ اب تک معلوم نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعر کے سوا کسی بھی شاعر کے پورے شعر کو کسی موقعہ پر پڑھا ہو ۔
تشریح : واقعہ ہجرت اجمال اور تفصیل کے ساتھ موقع بہ موقع کئی جگہ بیان میں آیا ہے ۔ تاریخ اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے 27 صفر13نبوت پنج شنبہ12 ستمبر621 ءکی تاریخ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ا بوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر شہر مکہ سے نکلے مکہ سے چار ۔ پانچ میل کے فاصلہ پر کوہ ثور ہے جس کی چڑھائی سر توڑ ہے۔ آپ بصدمشقت پہاڑ کے اوپر جاکر ایک غار میں قیام پذیر ہوئے ۔ ٍ الحمد للہ1970 ءکے حج مبارک کے موقعہ پر میں بھی اس غار تک جاکر وہاں تھوڑی دیر تاریخ ہجرت کو یاد کرچکا ہوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تین دن وہاں قیام رہا چو تھی شب میں وہاں سے ہر دو بزرگ عازم مدینہ ہوئے ۔ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن اریقط رضی اللہ عنہ کو بھی معاونین سفر کی حیثیت سے ساتھ لے گئے ۔ مدینہ کی جانب یکم ربیع الاول روز دو شنبہ16 ستمبر622ءکو روانگی ہوئی ۔ مکہ والوں نے آپ ہر دو کی گرفتاری کے لئے چاروں طرف جاسوس دوڑادیئے تھے۔ جن میں ایک سراقہ بن جعشم ( رضی اللہ عنہ ) بھی تھا جو اپنی گھوڑی پر سوار مسلح رابغ سے کچھ آگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا تھا مگر آپ کی بد دعا سے گھوڑی کے پیر زمین میں دھنس گئے اور سراقہ سمجھ گیا کہ ایک سچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آسان نہیں ہے جس کے ساتھ اللہ کی مدد ہے ۔ آخر وہ امن کا طلب گار ہوا اور تحریری طور پر اسے امان دے دی گئی۔ غار سے نکل کر پہلے ہی دن آپ کا گزر ام معبد کے خیمہ پر ہوا تھا جو قوم خزاعہ سے تھی اور سرراہ مسافروں کی خدمت کے لئے مشہور تھی۔ الاستیعاب میں ہے کہ جب سراقہ واپس ہونے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سراقہ اس وقت تیری کیا شان ہو گی جب کسریٰ کے شاہی کنگن تیرے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے سراقہ رضی اللہ عنہ احد کے بعد مسلمان ہوئے اور خلافت فاروقی میں مدائن فتح ہوا اور کسریٰ کا تاج اور زیورات دربار خلافت میں آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سراقہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر اس کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن پہنا دیئے اور زبان سے فرمایا اللہ اکبر اللہ کی بڑی شان ہے کہ کسریٰ کے کنگن سراقہ رضی اللہ عنہ اعرابی کے ہاتھوں میں پہنادیئے۔ خیمہ ام معبد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آرام فرمایا۔ وہاں سے روانہ ہونے پر راستہ میں بریدہ اسلمی ملا جو آپ کی تلاش میں نکلا تھا مگر آپ سے ہم کلام ہونے پر اپنے ستر ساتھیوں کے ساتھ مسلمان ہوگیا۔ نیز راستہ ہی میں زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بھی ملے جو شام سے آرہے تھے اور مسلمانوں کا تجارت پیشہ گروہ بھی ان کے ساتھ تھا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لئے سفید پارچا جات پیش کئے۔ 8 ربیع الاول روز دو شنبہ13 نبوی مطابق23 ستمبر کو آپ قبا میں پہنچ گئے ۔ پنچ شنبہ تک یہا ں قیام فرمایا اور اس دوران میں مسجد قبا کی بھی بنیاد رکھی اسی جگہ شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی یہاں پہنچ گئے ۔ 12 ربیع الاول 1ھ مطابق 27 ستمبر 622بروز جمعہ آپ قبا سے روانہ ہوئے جمعہ کا وقت بنو سالم کے گھر وں میں ہوگیا ۔ یہاں آپ نے سو آدمیوں کے ساتھ جمعہ پڑھا جو اسلام میں پہلا جمعہ تھا ۔ اس کے بعد آپ یثرب کی جنوبی جانب سے شہر میں داخل ہوئے اور آج ہی سے شہر کا نام مدینہ النبی ہو گیا۔ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ جو آپ کے ساتھ سفر میں تھا یہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا غلام تھا ۔ حضرت اسماءرضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں انہوں نے توشہ ایک چمڑے کے تھیلے میں رکھا اور اس کا منہ باندھنے کے لئے اپنے کمر بند کے دو ٹکڑے کر دیئے اور اس سے تھیلے کا منہ باندھا اس روز سے اس خاتون کا لقب ذات النطاقین ہوگیا ۔ عبد اللہ بن اریقط راستہ کا ماہر تھا اور عاص بن وائل سہمی کے خاندان کا حلیف تھا۔ جس نے عربی قاعدہ کے مطابق پیالہ میں ہاتھ ڈبو کر اس کے ساتھ حلف کی تھی ایسے پیالے میں کوئی رنگ یا خون بھر ا جاتا تھا۔ سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پانسے کئے اور فال کھولی کہ مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کرنا چاہیئے یا نہیں مگر فال میرے خلاف نکلی کہ میںان کا کچھ نقصان نہ کر سکو ں گا ۔ عرب تیروں پر فال کھولا کرتے تھے۔ ایک پر کام کرنا لکھتے دوسرے پر نہ کرنا لکھتے پھر تیر نکالنے میں جو نسا تیر نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے۔ سراقہ رضی اللہ عنہ نے پروانہ امن حاصل کرکے اپنے ترکش میں رکھ لیا تھا۔ روایت میں لفظ یزول بھم السراب کے الفاظ ہیں۔ سراب وہ ریتی جو دھوپ میں پانی کی طرح چمکتی ہے۔ حافظ نے کہا بعض نے اس کامطلب یوں کہا ہے کہ آنکھ میں ان کے آنے کی حرکت معلوم ہو رہی تھی لیکن نزدیک آچکے تھے ۔ یہ یہودی کا ذکر ہے جس نے اپنے محل کے اوپر سے سفر میں آئے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اہل مدینہ کو بشارت دی تھی کہ تمہارے بزرگ سردار آ پہنچے ۔ شروع میں مدینہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچان سکے اس لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ پر کپڑے کا سایہ کرنے کھڑے ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بوڑھے سفید ریش تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ڈاڑھی سیاہ تھی ۔ لہٰذا لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو پیغمبر سمجھا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جلدی سفید ی آگئی تھی ورنہ عمر میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو اڑھائی برس چھوٹے تھے۔ آخر حدیث میں ذکر ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت آپ نے ایک رجز پڑھا جس میں خیبر کے بوجھ کا ذکر ہے۔ خیبر سے لوگ کھجور انگور وغیرہ لاد کر لایا کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیبر کا بوجھ اس بوجھ کے مقابلہ پر جو مسلمان تعمیر مسجد نبوی کے لئے پتھر اور گارے کی شکل میں اٹھا رہے تھے کچھ بھی نہیں ہے وہ دنیا میں کھاپی ڈالتے ہیں اور یہ بوجھ تو ایسا ہے جس کا ثواب ہمیشہ قائم رہے گا۔ جس مسلمان کا شعر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا تھا وہ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ تھے حدیث ہجرت کے بارے میں یہ چند وضا حتی نوٹ لکھے گئے ہیں ورنہ تفصیلات بہت کچھ ہیں۔ واقعہ ہجرت اجمال اور تفصیل کے ساتھ موقع بہ موقع کئی جگہ بیان میں آیا ہے ۔ تاریخ اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے 27 صفر13نبوت پنج شنبہ12 ستمبر621 ءکی تاریخ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ا بوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر شہر مکہ سے نکلے مکہ سے چار ۔ پانچ میل کے فاصلہ پر کوہ ثور ہے جس کی چڑھائی سر توڑ ہے۔ آپ بصدمشقت پہاڑ کے اوپر جاکر ایک غار میں قیام پذیر ہوئے ۔ ٍ الحمد للہ1970 ءکے حج مبارک کے موقعہ پر میں بھی اس غار تک جاکر وہاں تھوڑی دیر تاریخ ہجرت کو یاد کرچکا ہوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تین دن وہاں قیام رہا چو تھی شب میں وہاں سے ہر دو بزرگ عازم مدینہ ہوئے ۔ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن اریقط رضی اللہ عنہ کو بھی معاونین سفر کی حیثیت سے ساتھ لے گئے ۔ مدینہ کی جانب یکم ربیع الاول روز دو شنبہ16 ستمبر622ءکو روانگی ہوئی ۔ مکہ والوں نے آپ ہر دو کی گرفتاری کے لئے چاروں طرف جاسوس دوڑادیئے تھے۔ جن میں ایک سراقہ بن جعشم ( رضی اللہ عنہ ) بھی تھا جو اپنی گھوڑی پر سوار مسلح رابغ سے کچھ آگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا تھا مگر آپ کی بد دعا سے گھوڑی کے پیر زمین میں دھنس گئے اور سراقہ سمجھ گیا کہ ایک سچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آسان نہیں ہے جس کے ساتھ اللہ کی مدد ہے ۔ آخر وہ امن کا طلب گار ہوا اور تحریری طور پر اسے امان دے دی گئی۔ غار سے نکل کر پہلے ہی دن آپ کا گزر ام معبد کے خیمہ پر ہوا تھا جو قوم خزاعہ سے تھی اور سرراہ مسافروں کی خدمت کے لئے مشہور تھی۔ الاستیعاب میں ہے کہ جب سراقہ واپس ہونے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سراقہ اس وقت تیری کیا شان ہو گی جب کسریٰ کے شاہی کنگن تیرے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے سراقہ رضی اللہ عنہ احد کے بعد مسلمان ہوئے اور خلافت فاروقی میں مدائن فتح ہوا اور کسریٰ کا تاج اور زیورات دربار خلافت میں آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سراقہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر اس کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن پہنا دیئے اور زبان سے فرمایا اللہ اکبر اللہ کی بڑی شان ہے کہ کسریٰ کے کنگن سراقہ رضی اللہ عنہ اعرابی کے ہاتھوں میں پہنادیئے۔ خیمہ ام معبد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آرام فرمایا۔ وہاں سے روانہ ہونے پر راستہ میں بریدہ اسلمی ملا جو آپ کی تلاش میں نکلا تھا مگر آپ سے ہم کلام ہونے پر اپنے ستر ساتھیوں کے ساتھ مسلمان ہوگیا۔ نیز راستہ ہی میں زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بھی ملے جو شام سے آرہے تھے اور مسلمانوں کا تجارت پیشہ گروہ بھی ان کے ساتھ تھا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لئے سفید پارچا جات پیش کئے۔ 8 ربیع الاول روز دو شنبہ13 نبوی مطابق23 ستمبر کو آپ قبا میں پہنچ گئے ۔ پنچ شنبہ تک یہا ں قیام فرمایا اور اس دوران میں مسجد قبا کی بھی بنیاد رکھی اسی جگہ شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی یہاں پہنچ گئے ۔ 12 ربیع الاول 1ھ مطابق 27 ستمبر 622بروز جمعہ آپ قبا سے روانہ ہوئے جمعہ کا وقت بنو سالم کے گھر وں میں ہوگیا ۔ یہاں آپ نے سو آدمیوں کے ساتھ جمعہ پڑھا جو اسلام میں پہلا جمعہ تھا ۔ اس کے بعد آپ یثرب کی جنوبی جانب سے شہر میں داخل ہوئے اور آج ہی سے شہر کا نام مدینہ النبی ہو گیا۔ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ جو آپ کے ساتھ سفر میں تھا یہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا غلام تھا ۔ حضرت اسماءرضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں انہوں نے توشہ ایک چمڑے کے تھیلے میں رکھا اور اس کا منہ باندھنے کے لئے اپنے کمر بند کے دو ٹکڑے کر دیئے اور اس سے تھیلے کا منہ باندھا اس روز سے اس خاتون کا لقب ذات النطاقین ہوگیا ۔ عبد اللہ بن اریقط راستہ کا ماہر تھا اور عاص بن وائل سہمی کے خاندان کا حلیف تھا۔ جس نے عربی قاعدہ کے مطابق پیالہ میں ہاتھ ڈبو کر اس کے ساتھ حلف کی تھی ایسے پیالے میں کوئی رنگ یا خون بھر ا جاتا تھا۔ سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پانسے کئے اور فال کھولی کہ مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کرنا چاہیئے یا نہیں مگر فال میرے خلاف نکلی کہ میںان کا کچھ نقصان نہ کر سکو ں گا ۔ عرب تیروں پر فال کھولا کرتے تھے۔ ایک پر کام کرنا لکھتے دوسرے پر نہ کرنا لکھتے پھر تیر نکالنے میں جو نسا تیر نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے۔ سراقہ رضی اللہ عنہ نے پروانہ امن حاصل کرکے اپنے ترکش میں رکھ لیا تھا۔ روایت میں لفظ یزول بھم السراب کے الفاظ ہیں۔ سراب وہ ریتی جو دھوپ میں پانی کی طرح چمکتی ہے۔ حافظ نے کہا بعض نے اس کامطلب یوں کہا ہے کہ آنکھ میں ان کے آنے کی حرکت معلوم ہو رہی تھی لیکن نزدیک آچکے تھے ۔ یہ یہودی کا ذکر ہے جس نے اپنے محل کے اوپر سے سفر میں آئے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اہل مدینہ کو بشارت دی تھی کہ تمہارے بزرگ سردار آ پہنچے ۔ شروع میں مدینہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچان سکے اس لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ پر کپڑے کا سایہ کرنے کھڑے ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بوڑھے سفید ریش تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ڈاڑھی سیاہ تھی ۔ لہٰذا لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو پیغمبر سمجھا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جلدی سفید ی آگئی تھی ورنہ عمر میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو اڑھائی برس چھوٹے تھے۔ آخر حدیث میں ذکر ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت آپ نے ایک رجز پڑھا جس میں خیبر کے بوجھ کا ذکر ہے۔ خیبر سے لوگ کھجور انگور وغیرہ لاد کر لایا کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیبر کا بوجھ اس بوجھ کے مقابلہ پر جو مسلمان تعمیر مسجد نبوی کے لئے پتھر اور گارے کی شکل میں اٹھا رہے تھے کچھ بھی نہیں ہے وہ دنیا میں کھاپی ڈالتے ہیں اور یہ بوجھ تو ایسا ہے جس کا ثواب ہمیشہ قائم رہے گا۔ جس مسلمان کا شعر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا تھا وہ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ تھے حدیث ہجرت کے بارے میں یہ چند وضا حتی نوٹ لکھے گئے ہیں ورنہ تفصیلات بہت کچھ ہیں۔