‌صحيح البخاري - حدیث 3886

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ حَدِيثِ الإِسْرَاءِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3886

کتاب: انصار کے مناقب باب: بیت المقدس تک جانے کا قصہ ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے ، ان سے ابن شہاب نے ، کہ مجھ سے کہا ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہماسے سنا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا تھاکہ جب قریش نے ( معراج کے واقعہ کے سلسلے میں ) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لئے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرناشروع کردیئے ۔
تشریح : معراج کی رات کو آپ ام ہانی کے گھر میں تھے ، تو مسجد حرام سے حرم کی زمین مراد ہے ۔ آپ کا معراج مکہ سے بیت المقدس تک تو قطعی ہے۔ جو قرآن پاک سے ثابت ہے اس کا منکر قرآن کامنکر ہے اور قرآن کا منکر کافر ہے اور بیت المقدس سے آسمانوں تک صحیح حدیث سے ثابت ہے اس کا منکر گمراہ اور بدعتی ہے۔ حافظ نے کہا اکثر علماءسلف اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ یہ معراج جسم اور روح دونوں کے ساتھ بیداری میں ہوا ۔ یہی امر حق ہے۔ بیہقی کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے جب معراج کا قصہ بیان کیا تو کفار قریش نے انکا ر کیا اورابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے انہوں نے آپ کی تصدیق کردی اس دن سے ان کالقب صدیق رضی اللہ عنہ ہوگیا ۔ بزار نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ بیت المقدس کی مسجد لائی گئی اور عقیل کے گھر کے پاس رکھ دی گئی ۔ میں ا س کو دیکھتا جاتا اور اس کی صفت بیان کرتا جاتا تھا ۔ بعض نے کہا کہ اسراءاور معراج دونوں الگ الگ راتوں میں ہوئے ہیں کیونکہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر دوکو الگ الگ بابوں میں بیان کیا ہے مگر خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الصلوۃ میں یہ باب باندھا ہے کہ لیلۃ الاسراءمیں نماز کس طرح فرض ہوئی ۔ معلوم ہواکہ اسراءاور معراج ایک ہی رات میں ہوئے ہیں۔ معراج کی رات کو آپ ام ہانی کے گھر میں تھے ، تو مسجد حرام سے حرم کی زمین مراد ہے ۔ آپ کا معراج مکہ سے بیت المقدس تک تو قطعی ہے۔ جو قرآن پاک سے ثابت ہے اس کا منکر قرآن کامنکر ہے اور قرآن کا منکر کافر ہے اور بیت المقدس سے آسمانوں تک صحیح حدیث سے ثابت ہے اس کا منکر گمراہ اور بدعتی ہے۔ حافظ نے کہا اکثر علماءسلف اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ یہ معراج جسم اور روح دونوں کے ساتھ بیداری میں ہوا ۔ یہی امر حق ہے۔ بیہقی کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے جب معراج کا قصہ بیان کیا تو کفار قریش نے انکا ر کیا اورابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے انہوں نے آپ کی تصدیق کردی اس دن سے ان کالقب صدیق رضی اللہ عنہ ہوگیا ۔ بزار نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ بیت المقدس کی مسجد لائی گئی اور عقیل کے گھر کے پاس رکھ دی گئی ۔ میں ا س کو دیکھتا جاتا اور اس کی صفت بیان کرتا جاتا تھا ۔ بعض نے کہا کہ اسراءاور معراج دونوں الگ الگ راتوں میں ہوئے ہیں کیونکہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر دوکو الگ الگ بابوں میں بیان کیا ہے مگر خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الصلوۃ میں یہ باب باندھا ہے کہ لیلۃ الاسراءمیں نماز کس طرح فرض ہوئی ۔ معلوم ہواکہ اسراءاور معراج ایک ہی رات میں ہوئے ہیں۔