‌صحيح البخاري - حدیث 3872

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ هِجْرَةِ الحَبَشَةِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنَا عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ أَخْبَرَهُ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ قَالَا لَهُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُكَلِّمَ خَالَكَ عُثْمَانَ فِي أَخِيهِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ وَكَانَ أَكْثَرَ النَّاسُ فِيمَا فَعَلَ بِهِ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَانْتَصَبْتُ لِعُثْمَانَ حِينَ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً وَهِيَ نَصِيحَةٌ فَقَالَ أَيُّهَا الْمَرْءُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ فَانْصَرَفْتُ فَلَمَّا قَضَيْتُ الصَّلَاةَ جَلَسْتُ إِلَى الْمِسْوَرِ وَإِلَى ابْنِ عَبْدِ يَغُوثَ فَحَدَّثْتُهُمَا بِالَّذِي قُلْتُ لِعُثْمَانَ وَقَالَ لِي فَقَالَا قَدْ قَضَيْتَ الَّذِي كَانَ عَلَيْكَ فَبَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ مَعَهُمَا إِذْ جَاءَنِي رَسُولُ عُثْمَانَ فَقَالَا لِي قَدْ ابْتَلَاكَ اللَّهُ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَا نَصِيحَتُكَ الَّتِي ذَكَرْتَ آنِفًا قَالَ فَتَشَهَّدْتُ ثُمَّ قُلْتُ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ وَكُنْتَ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآمَنْتَ بِهِ وَهَاجَرْتَ الْهِجْرَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ وَصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتَ هَدْيَهُ وَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِي شَأْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ فَحَقٌّ عَلَيْكَ أَنْ تُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدَّ فَقَالَ لِي يَا ابْنَ أَخِي آدْرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُلْتُ لَا وَلَكِنْ قَدْ خَلَصَ إِلَيَّ مِنْ عِلْمِهِ مَا خَلَصَ إِلَى الْعَذْرَاءِ فِي سِتْرِهَا قَالَ فَتَشَهَّدَ عُثْمَانُ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ وَكُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآمَنْتُ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَمَا قُلْتَ وَصَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ وَبَايَعْتُهُ وَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ اسْتَخْلَفَ اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ ثُمَّ اسْتُخْلِفَ عُمَرُ فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ ثُمَّ اسْتُخْلِفْتُ أَفَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمْ مِثْلُ الَّذِي كَانَ لَهُمْ عَلَيَّ قَالَ بَلَى قَالَ فَمَا هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي تَبْلُغُنِي عَنْكُمْ فَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ شَأْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ فَسَنَأْخُذُ فِيهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِالْحَقِّ قَالَ فَجَلَدَ الْوَلِيدَ أَرْبَعِينَ جَلْدَةً وَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يَجْلِدَهُ وَكَانَ هُوَ يَجْلِدُهُ وَقَالَ يُونُسُ وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَفَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمْ مِنْ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِي كَانَ لَهُمْ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ مَا ابْتُلِيتُمْ بِهِ مِنْ شِدَّةٍ وَفِي مَوْضِعٍ الْبَلَاءُ الِابْتِلَاءُ وَالتَّمْحِيصُ مَنْ بَلَوْتُهُ وَمَحَّصْتُهُ أَيْ اسْتَخْرَجْتُ مَا عِنْدَهُ يَبْلُو يَخْتَبِرُ مُبْتَلِيكُمْ مُخْتَبِرُكُمْ وَأَمَّا قَوْلُهُ بَلَاءٌ عَظِيمٌ النِّعَمُ وَهِيَ مِنْ أَبْلَيْتُهُ وَتِلْكَ مِنْ ابْتَلَيْتُهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3872

کتاب: انصار کے مناقب باب: مسلمانوں کا حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا بیان ہم سے عبد اللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ، انہیں معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے کہا کہ ہم سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا ، انہیں عبید اللہ بن عدی بن خیارنے خبر دی ، انہیں مسور بن مخرمہ اور عبد الر حمن بن اسود بن عبد یغوث نے کہ ان دونوںنے عبید اللہ بن عدی بن خیار سے کہا تم اپنے ماموں ( امیر المومنین ) عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کے بھائی ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے باب میں گفتگو کیوں نہیں کرتے ، ( ہو ا یہ تھا کہ لوگوں نے اس پر بہت اعتراض کیا تھا جو حضرت عثمان نے ولید کے ساتھ کیا تھا ) ، عبید اللہ نے بیان کیا کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نماز پڑھنے نکلے تو میں ان کے راستے میںکھڑا ہو گیا اور میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے ، آپ کو ایک خیر خواہانہ مشورہ دینا ہے ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بھلے آدمی ! تم سے تو میں خدا کی پنا ہ مانگتا ہوں ۔ یہ سن کر میں وہاں سے واپس چلا آیا ۔ نماز سے فا رغ ہونے کے بعد میں مسور بن مخرمہ اور ابن عبد یغوث کی خدمت میں حاضر ہوا اور عثمان رضی اللہ عنہ سے جو کچھ میںنے کہا تھا اور انہوںنے اس کا جواب مجھے جودیا تھا ، سب میں نے بیان کر دیا ۔ ان لوگوں نے کہا تم نے اپنا حق اداکردیا ۔ ابھی میں اس مجلس میں بیٹھا تھاکہ عثمان رضی اللہ عنہ کا آدمی میرے پاس ( بلانے کے لیے ) آیا ۔ ان لوگوں نے مجھ سے کہا تمہیں اللہ تعالیٰ نے امتحان میںڈالا ہے ۔ آخر میں وہاں سے چلا اور حضرت عثمان رضی ا للہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ نے دریافت کیا تم ابھی جس خیر خواہی کا ذکر کررہے تھے وہ کیاتھی ؟ انہوںنے بیان کیا کہ پھر میں نے کہا اللہ گواہ ہے پھر میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی ، آپ ان لوگوںمیں سے تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا تھا ۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے دوہجرتیں کیں ( ایک حبشہ کو اور دوسری مدینہ کو ) آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو دیکھا ہے ۔ بات یہ ہے کہ ولید بن عقبہ کے بارے میںلوگوں میں اب بہت چرچا ہونے لگا ہے ۔ اس لئے آپ کے لئے ضروری ہے کہ اس پر ( شراب نوشی کی ) حد قائم کریں ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے بھتیجے یا میرے بھانجے کیا تم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی باتیں اس طرح میں نے حاصل کی تھیں جو ایک کنوا ری لڑکی کو بھی اپنے پردے میں معلوم ہو چکی ہیں ۔ انہوںنے بیان کیا کہ یہ سن کر پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اللہ کو گواہ کرکے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر اپنی کتاب نازل کی تھی اور یہ بھی واقعہ ہے کہ میں ان لوگوںمیں تھا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر ( ابتداءہی میں ) لبیک کہا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لے کر آئے تھے میں اس پر ایمان لایا اور جیسا کہ تم نے کہا میں نے دوہجرتیں کیں ۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت بھی کی ۔ اللہ کی قسم ! میں نے آپ کی نافرمانی نہیں کی اورنہ کبھی خیانت کی آخر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتحب ہوئے ۔ اللہ کی قسم ! میں نے ان کی بھی کبھی نا فرمانی نہیں کی اور نہ ان کے کسی معاملہ میں کوئی خیانت کی ۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے میں نے ان کی بھی کبھی نافرمانی نہیں کی اور نہ کبھی خیانت کی ۔ اس کے بعد میں خلیفہ ہوا ۔ کیا اب میرا تم لوگوں پر وہی حق نہیں ہے جو ان کا مجھ پر تھا ؟ عبید اللہ نے عرض کیا یقینا آپ کا حق ہے پھر انہوں نے کہا پھر ان باتوں کی کیا حقیقت ہے جو تم لوگوں کی طرف سے پہنچ رہی ہیں ؟ جہاں تک تم نے ولید بن عقبہ کے بارے میں ذکر کیا ہے تو ہم ان شاءاللہ اس معاملے میں اس کی گرفت حق کے ساتھ کریں گے ۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر ( گواہی گزر نے کے بعد ) ولید بن عقبہ کے چالیس کوڑے لگوائے گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کوڑے لگائےں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نے اس کو کوڑے مارے تھے ۔ اس حدیث کو یونس اورزہری کے بھتیجے نے بھی زہری سے روایت کیا اس میں عثمان رضی اللہ عنہ کا قول اس طرح بیان کیا ، کیا تم لوگوں پر میرا وہی حق نہیں ہے جو ان لوگوں کا تم پر تھا ۔
تشریح : حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ کو کوفہ کی حکومت سے معزول کر کے ولیدکوان کی جگہ مقرر کیا تھا ولید نے وہاں کئی بے اعتدالیا ں کیں ۔ شراب کے نشہ میں نماز پڑھا نے کھڑے ہوگئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو سزا دینے میں دیر کی ۔ لوگوں کو یہ ناگوار ہوا تو انہوں نے عبید اللہ بن عدی سے جو حضرت عثمان کے بھانجے اور آپ کے مقرب تھے اس مقدمہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے گفتگو کرنے کے لئے کہا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شروع میں یہ سمجھے کہ شاید عبید اللہ کوئی خدمت یا روپے کا طلب گار ہواور مجھ سے وہ نہ دیا جائے تو وہ ناراض ہو اور مفت میں خرابی پھیلے ۔ بعد میں جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے واقعہ کو سمجھا تو عبید اللہ کو بلاکر گفتگو کی جو روایت میںمذکور ہے۔ عبید اللہ نے حضرت عثمان کو بتلایا کہ میں محض آپ کی خیر خواہی میں یہ باتیں کہہ رہا ہوں بعد میں حضرت عثمان نے ولید کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے شراب کی حد میں کوڑے لگوائے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے۔ باب کا مطلب ہجرت حبشہ سے نکلتا ہے گو حبش کے ملک کی طر ف دوبارہ ہجرت ہوئی تھی جیسے امام احمد اورابن اسحاق وغیر ہ نے نکالا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو جو اسّی ( 80 ) آدمیوں کے قریب تھے نجاشی کے ملک میں بھیج دیاپھر ان کو یہ خبر ملی کہ مشرکوں نے سورۃ نجم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا اور وہ مسلمان ہوگئے ۔ یہ خبر سن کر وہ مکہ لوٹ آئے وہا ں پہلے سے بھی زیاہ مشرکوں کے ہاتھ سے تکلیف اٹھانے لگے آخر دوبارہ ہجرت کی اس وقت تک اسی مرد اور اٹھا رہ عورتیں تھیں مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوبارہ یہ ہجرت نہیں کی اس لئے پہلی دو ہجرتوں سے حبش اور مدینہ کی ہجر ت مراد ہے حالانکہ مدینہ کی ہجرت دوسری ہجرت تھی مگر دونوں کو تغلیباًاو لیین کہہ دیا جیسے شمسین ، قمرین کہتے ہیں ۔ تیسیر القاری کے مؤلف نے غلطی کی جو کہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حبش کو ہجرت نہیں کی تھی حضرت عثمان رضٰ اللہ عنہ تو سب سے پہلے اپنی بی بی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو لے کر حبش کی طرف نکلے اور شاید یہ طبع کی غلطی ہو ، مؤلف کی عبارت یوں ہوکہ عثمان رضی اللہ عنہ نے دوبارہ ہجرت نہیں کی تھی ( وحیدی ) دوسری روایت میں اسی کوڑوں کا ذکر ہے یہ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ جب اسی کوڑے پڑے تو چالیس بطریق اولیٰ پڑگئے یا اس کوڑے کے دہرے ہوں گے تو چالیس ماروں کے بس اسی کوڑے ہوگئے ۔ ولید کی شراب نوشی کی شہادت دینے والے حمران اور صعب تھے ۔ یونس کی روایت کو خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے منا قب عثمان رضی اللہ عنہ میں وصل کیا ہے اور زہری کے بھتیجے کی روایت کو ابن عبد البر نے تمہید میں وصل کیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ کو کوفہ کی حکومت سے معزول کر کے ولیدکوان کی جگہ مقرر کیا تھا ولید نے وہاں کئی بے اعتدالیا ں کیں ۔ شراب کے نشہ میں نماز پڑھا نے کھڑے ہوگئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو سزا دینے میں دیر کی ۔ لوگوں کو یہ ناگوار ہوا تو انہوں نے عبید اللہ بن عدی سے جو حضرت عثمان کے بھانجے اور آپ کے مقرب تھے اس مقدمہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے گفتگو کرنے کے لئے کہا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شروع میں یہ سمجھے کہ شاید عبید اللہ کوئی خدمت یا روپے کا طلب گار ہواور مجھ سے وہ نہ دیا جائے تو وہ ناراض ہو اور مفت میں خرابی پھیلے ۔ بعد میں جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے واقعہ کو سمجھا تو عبید اللہ کو بلاکر گفتگو کی جو روایت میںمذکور ہے۔ عبید اللہ نے حضرت عثمان کو بتلایا کہ میں محض آپ کی خیر خواہی میں یہ باتیں کہہ رہا ہوں بعد میں حضرت عثمان نے ولید کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے شراب کی حد میں کوڑے لگوائے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے۔ باب کا مطلب ہجرت حبشہ سے نکلتا ہے گو حبش کے ملک کی طر ف دوبارہ ہجرت ہوئی تھی جیسے امام احمد اورابن اسحاق وغیر ہ نے نکالا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو جو اسّی ( 80 ) آدمیوں کے قریب تھے نجاشی کے ملک میں بھیج دیاپھر ان کو یہ خبر ملی کہ مشرکوں نے سورۃ نجم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا اور وہ مسلمان ہوگئے ۔ یہ خبر سن کر وہ مکہ لوٹ آئے وہا ں پہلے سے بھی زیاہ مشرکوں کے ہاتھ سے تکلیف اٹھانے لگے آخر دوبارہ ہجرت کی اس وقت تک اسی مرد اور اٹھا رہ عورتیں تھیں مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوبارہ یہ ہجرت نہیں کی اس لئے پہلی دو ہجرتوں سے حبش اور مدینہ کی ہجر ت مراد ہے حالانکہ مدینہ کی ہجرت دوسری ہجرت تھی مگر دونوں کو تغلیباًاو لیین کہہ دیا جیسے شمسین ، قمرین کہتے ہیں ۔ تیسیر القاری کے مؤلف نے غلطی کی جو کہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حبش کو ہجرت نہیں کی تھی حضرت عثمان رضٰ اللہ عنہ تو سب سے پہلے اپنی بی بی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو لے کر حبش کی طرف نکلے اور شاید یہ طبع کی غلطی ہو ، مؤلف کی عبارت یوں ہوکہ عثمان رضی اللہ عنہ نے دوبارہ ہجرت نہیں کی تھی ( وحیدی ) دوسری روایت میں اسی کوڑوں کا ذکر ہے یہ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ جب اسی کوڑے پڑے تو چالیس بطریق اولیٰ پڑگئے یا اس کوڑے کے دہرے ہوں گے تو چالیس ماروں کے بس اسی کوڑے ہوگئے ۔ ولید کی شراب نوشی کی شہادت دینے والے حمران اور صعب تھے ۔ یونس کی روایت کو خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے منا قب عثمان رضی اللہ عنہ میں وصل کیا ہے اور زہری کے بھتیجے کی روایت کو ابن عبد البر نے تمہید میں وصل کیا ۔