‌صحيح البخاري - حدیث 3867

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ إِسْلاَمِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ ؓ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنَا قَيْسٌ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ يَقُولُ لِلْقَوْمِ لَوْ رَأَيْتُنِي مُوثِقِي عُمَرُ عَلَى الْإِسْلَامِ أَنَا وَأُخْتُهُ وَمَا أَسْلَمَ وَلَوْ أَنَّ أُحُدًا انْقَضَّ لِمَا صَنَعْتُمْ بِعُثْمَانَ لَكَانَ مَحْقُوقًا أَنْ يَنْقَضَّ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3867

کتاب: انصار کے مناقب باب: حضرت عمر بن خطاب ؓ کے اسلام لانے کا واقعہ مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے قیس نے ، کہا کہ میں نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا ایک وقت تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ جب اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے تو مجھے اوراپنی بہن کو اس لئے باندھ رکھا تھا کہ ہم اسلام کیوں لائے ، اور آج تم نے جو کچھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ برتاؤ کیا ہے ، اگر اس پر احد پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سرک جائے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے ۔
تشریح : حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی زبانی بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے ، باب اور حدیث میں یہ ی مطابقت ہے۔ حضرت سعید سیدنا حضرت عثمان غنی کی شہا دت پر اظہار افسوس کر رہے ہیں اور بتلا رہے ہیں کہ یہ حادثہ ایسا زبر دست ہے کہ اس کا اثر اگر احد پہاڑ بھی قبول کرے تو بجاہے انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ شہادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ واقعی بہت بڑا حادثہ ہے جس سے اسلام میں رخنہ شروع ہوا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ: سیر کی کتابوں میں طول کے ساتھ مذکورہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابو جہل نے یہ کہا کہ جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سر لائے میں اس کو سو اونٹ انعام دوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ تلوار لٹکا کر چلے، راستے میں کسی نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد میں مارنا اپنے بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور بہن سے تو سمجھ لو، وہ دونوں مسلمان ہوگئے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کے گھر پہنچ کر بہنوئی اور بہن دونوں کی مشکیں کسیں ، خوب مار اپیٹا اخیر کو ----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- نادم ہوئے ، اپنی بہن سے کہنے لگے ذرا مجھ کو وہ کلا م تو سناؤ جو تم میاں بیوی میرے آنے کے وقت پڑھ رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ تم بے وضو ہو ، وضو کرو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور مصحف کھول کر پڑھنے لگے ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ زبان سے یہ کلمہ پاک نکل پڑا اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر ! مسلمان ہوجا انہوں نے صدق دل سے کلمہ پڑھا سارے مسلمانوں نے خوشی سے تکبیر کہی ۔ ( وحیدی ) حضرت اقبال نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کو یوں بیان کیا ہے نمی دانی کہ سوز قرات تو دگر گوں کردتقدیر عمررا یعنی قرآن پاک کی قرات کے سوز نے جو ان کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لحن سے ظاہر ہورہا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قسمت کو بدل دیا اور وہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ افسوس آج وہ قرآ ن پاک ہے قرات کر نے والے بکثرت موجود ہیں مگر وہ سوز مفقود ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی کا نام سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ہے، یہ آپ کے چچا زاد بھائی بھی ہوتے تھے ۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی زبانی بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے ، باب اور حدیث میں یہ ی مطابقت ہے۔ حضرت سعید سیدنا حضرت عثمان غنی کی شہا دت پر اظہار افسوس کر رہے ہیں اور بتلا رہے ہیں کہ یہ حادثہ ایسا زبر دست ہے کہ اس کا اثر اگر احد پہاڑ بھی قبول کرے تو بجاہے انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ شہادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ واقعی بہت بڑا حادثہ ہے جس سے اسلام میں رخنہ شروع ہوا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ: سیر کی کتابوں میں طول کے ساتھ مذکورہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابو جہل نے یہ کہا کہ جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سر لائے میں اس کو سو اونٹ انعام دوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ تلوار لٹکا کر چلے، راستے میں کسی نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد میں مارنا اپنے بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور بہن سے تو سمجھ لو، وہ دونوں مسلمان ہوگئے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کے گھر پہنچ کر بہنوئی اور بہن دونوں کی مشکیں کسیں ، خوب مار اپیٹا اخیر کو ----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- نادم ہوئے ، اپنی بہن سے کہنے لگے ذرا مجھ کو وہ کلا م تو سناؤ جو تم میاں بیوی میرے آنے کے وقت پڑھ رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ تم بے وضو ہو ، وضو کرو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور مصحف کھول کر پڑھنے لگے ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ زبان سے یہ کلمہ پاک نکل پڑا اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر ! مسلمان ہوجا انہوں نے صدق دل سے کلمہ پڑھا سارے مسلمانوں نے خوشی سے تکبیر کہی ۔ ( وحیدی ) حضرت اقبال نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کو یوں بیان کیا ہے نمی دانی کہ سوز قرات تو دگر گوں کردتقدیر عمررا یعنی قرآن پاک کی قرات کے سوز نے جو ان کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لحن سے ظاہر ہورہا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قسمت کو بدل دیا اور وہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ افسوس آج وہ قرآ ن پاک ہے قرات کر نے والے بکثرت موجود ہیں مگر وہ سوز مفقود ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی کا نام سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ہے، یہ آپ کے چچا زاد بھائی بھی ہوتے تھے ۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔