‌صحيح البخاري - حدیث 3862

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ إِسْلاَمِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ ؓ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ يَقُولُ وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنَّ عُمَرَ لَمُوثِقِي عَلَى الْإِسْلَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عُمَرُ وَلَوْ أَنَّ أُحُدًا ارْفَضَّ لِلَّذِي صَنَعْتُمْ بِعُثْمَانَ لَكَانَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3862

کتاب: انصار کے مناقب باب: سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ؓ کا اسلام قبول کرنا ہم سے قتیبہ بن سعیدنے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے اسماعیل نے ، ان سے قیس نے بیان کیا کہ میں نے کوفہ کی مسجد میں سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے کہ ایک وقت تھا جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اسلام لانے سے پہلے مجھے اس وجہ سے باندھ رکھا تھا کہ میں نے اسلام کیوں قبول کیا لیکن تم لوگوںنے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ جوکچھ کیا ہے اس کی وجہ سے اگر احد پہاڑبھی اپنی جگہ سے سرک جائے تواسے ایسا کرنا ہی چا ہئے ۔
تشریح : حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت تاریخ اسلام کا ایک بہت بڑا المیہ ہے ، حضرت سعید بن زید اس پر اظہار تاسف کر رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ زمانہ کفر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے باندھ رکھا تھا ۔ ایک زمانہ آج ہے کہ خود مسلمان ہی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر بزرگ کے خون ناحق میں اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں ، فی الواقع یہ حادثہ ایسا ہی ہے کہ اس پر احد پہاڑکو اپنی جگہ سے سرک جانا چاہئے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو نام کے مسلمان اور در پردہ منافق تھے جو مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرناچاہتے تھے ۔ اس غرض سے کچھ بہانوں کاسہارا لے کر ان لوگوں نے علم بغاوت بلند کیا کچھ سیدھے سادھے دوسرے مسلمانوں کو بھی بہکا کر اپنے ساتھ ملالیا ۔ آخر ان لوگوں نے حضرت عثمان کو شہید کرکے مسلمانوں میں فتنہ و فساد کا ایک ایسا دروازہ کھول دیا جو آج تک بند نہیں ہورہا ہے اور نہ بند ہونے کی سردست امید ہے ۔ تفصیلات کے لئے دفاتر کی ضرورت ہے مگر اتنا ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اللہ ورسول کے سچے فدائی مقبول بارگاہ تھے ۔ ان کے خون ناحق میں ہاتھ رنگنے والے ہر مذمت کے مستحق ہیں اور قیامت تک ان کو مسلمانوں کی بیشتر تعداد برائی کے ساتھ یاد کرتی رہے گی ۔ چونکہ حدیث میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس حدیث کو اس باب کے تحت نقل کیا گیا ۔ حضرت سعید بن زید ہی کے نکاح میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں جن کا نام فاطمہ ہے۔ ان ہی کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔ اس زمانہ میں کچھ لوگ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نقائص تلاش کرکے امت کو پریشان کررہے ہیں حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ معصوم نہیں تھے اگر ان سے خلافت کے زمانہ میں کچھ کمزوریا ں سرزد ہو گئیں ہوں تو ان کو اللہ کے حوالہ کرنا چاہئےے نہ کہ ان کو اچھا ل کر نہ صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بلکہ جماعت صحابہ سے مسلمانوں کو بد ظن کرنا یہ کوئی نیک کام نہیں ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت تاریخ اسلام کا ایک بہت بڑا المیہ ہے ، حضرت سعید بن زید اس پر اظہار تاسف کر رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ زمانہ کفر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے باندھ رکھا تھا ۔ ایک زمانہ آج ہے کہ خود مسلمان ہی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر بزرگ کے خون ناحق میں اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں ، فی الواقع یہ حادثہ ایسا ہی ہے کہ اس پر احد پہاڑکو اپنی جگہ سے سرک جانا چاہئے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو نام کے مسلمان اور در پردہ منافق تھے جو مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرناچاہتے تھے ۔ اس غرض سے کچھ بہانوں کاسہارا لے کر ان لوگوں نے علم بغاوت بلند کیا کچھ سیدھے سادھے دوسرے مسلمانوں کو بھی بہکا کر اپنے ساتھ ملالیا ۔ آخر ان لوگوں نے حضرت عثمان کو شہید کرکے مسلمانوں میں فتنہ و فساد کا ایک ایسا دروازہ کھول دیا جو آج تک بند نہیں ہورہا ہے اور نہ بند ہونے کی سردست امید ہے ۔ تفصیلات کے لئے دفاتر کی ضرورت ہے مگر اتنا ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اللہ ورسول کے سچے فدائی مقبول بارگاہ تھے ۔ ان کے خون ناحق میں ہاتھ رنگنے والے ہر مذمت کے مستحق ہیں اور قیامت تک ان کو مسلمانوں کی بیشتر تعداد برائی کے ساتھ یاد کرتی رہے گی ۔ چونکہ حدیث میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس حدیث کو اس باب کے تحت نقل کیا گیا ۔ حضرت سعید بن زید ہی کے نکاح میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں جن کا نام فاطمہ ہے۔ ان ہی کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔ اس زمانہ میں کچھ لوگ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نقائص تلاش کرکے امت کو پریشان کررہے ہیں حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ معصوم نہیں تھے اگر ان سے خلافت کے زمانہ میں کچھ کمزوریا ں سرزد ہو گئیں ہوں تو ان کو اللہ کے حوالہ کرنا چاہئےے نہ کہ ان کو اچھا ل کر نہ صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بلکہ جماعت صحابہ سے مسلمانوں کو بد ظن کرنا یہ کوئی نیک کام نہیں ہے۔