‌صحيح البخاري - حدیث 3861

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ إِسْلاَمِ أَبِي ذَرٍّ الغِفَارِيِّ ؓ صحيح حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى عَنْ أَبِي جَمْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَخِيهِ ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنْ السَّمَاءِ وَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ ائْتِنِي فَانْطَلَقَ الْأَخُ حَتَّى قَدِمَهُ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ فَقَالَ لَهُ رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَكَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ فَقَالَ مَا شَفَيْتَنِي مِمَّا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ بَعْضُ اللَّيْلِ فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَا يَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَمْسَى فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ فَقَالَ أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ لَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ فَعَادَ عَلِيٌّ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ فَأَقَامَ مَعَهُ ثُمَّ قَالَ أَلَا تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ قَالَ إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي فَعَلْتُ فَفَعَلَ فَأَخْبَرَهُ قَالَ فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتْبَعْنِي فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتْبَعْنِي حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ثُمَّ قَامَ الْقَوْمُ فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ وَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ قَالَ وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ وَأَنَّ طَرِيقَ تِجَارِكُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ ثُمَّ عَادَ مِنْ الْغَدِ لِمِثْلِهَا فَضَرَبُوهُ وَثَارُوا إِلَيْهِ فَأَكَبَّ الْعَبَّاسُ عَلَيْهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3861

کتاب: انصار کے مناقب باب: حضرت ابوذر ؓکے اسلام قبول کر نے کا واقعہ ۔ مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الرحمن بن مہدی نے ، کہا ہم سے مثنیٰ نے ، ان سے ابوجمرہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابو ذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوںنے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لئے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبرآتی ہے ۔ میرے لئے خبریں حاصل کرکے لا ۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا ۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہوکر انہوں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے ، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کوحکم کر تے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے ۔ اس پر ابو ذررضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لئے میں نے تمہیں بھیجا تھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی ، آخر انہوںنے خودتوشہ باندھا ، پانی سے بھر ا ہوا ایک پر انا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے ، مسجد الحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیںتھے اور کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پو چھنا بھی مناسب نہیں سمجھا ، کچھ رات گزرگئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے ، علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ میرے گھر پر چل کر آرام کیجئے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی ۔ جب صبح ہوئی تو ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجد الحرام میں آگئے ۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے ۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے ۔ علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا ، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی ، تیسرا دن جب ہوا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہوکہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے ؟ ابوذررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کرلو کہ میری راہ نمائی کروگے تو میں تم کو سب کچھ بتا دوں گا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرلیا تو انہوں نے اپنے خیالات کی خبر دی ۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلا شبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا ۔ اگر میں ( راستے میں ) کوئی ایسی بات دیکھوںگا جس سے مجھے تمہارے بارے میں خطرہ ہوتو میں کھڑا ہوجاؤں گا ۔ ( کسی دیوار کے قریب ) گویا مجھے پیشاب کرنا ہے ، اس وقت تم میرا انتظار نہ کر نا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آجانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں ، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہوجانا ۔ انہوںنے ایسا ہی کیا اور پیچھے پیچھے چلے تاآنکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے ، آپ کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاؤ تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہوجائے ( تو پھر ہمارے پاس آجانا ) ابو ذررضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکا رکر کلمئہ توحید کا اعلان کروں گا ۔ چنا نچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہا ں سے واپس وہ مسجد حرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا کہ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں “ ۔ یہ سنتے ہی سارا مجمع ان پر ٹوٹ پڑا اورانہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آگئے اور ابو ذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے کو ڈال کر قریش سے کہا افسوس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتاہے اس طرح سے ان سے ان کو بچایا ۔ پھر ابو ذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجد الحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا ۔ قو م پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگی اس دن بھی عباس ان پر اوندھے پڑگئے
تشریح : حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بلند مرتبہ تارک الدنیا مہاجرین کرام میں سے ہیں ۔ ان کا نام جندب تھا ، مکہ شریف میں شروع اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے۔ پھر یہ اپنی قوم میں چلے گئے تھے اور مدت تک وہاں رہے ، غزوئہ خندق کے موقعہ پر خدمت نبوی میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تھے اور پھر مقام زبدہ میں قیام کیا اور32ھ میں خلافت عثمانی میں ان کا زبدہ ہی میں انتقال ہوا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی عبادت کرتے تھے ۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بلند مرتبہ تارک الدنیا مہاجرین کرام میں سے ہیں ۔ ان کا نام جندب تھا ، مکہ شریف میں شروع اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے۔ پھر یہ اپنی قوم میں چلے گئے تھے اور مدت تک وہاں رہے ، غزوئہ خندق کے موقعہ پر خدمت نبوی میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تھے اور پھر مقام زبدہ میں قیام کیا اور32ھ میں خلافت عثمانی میں ان کا زبدہ ہی میں انتقال ہوا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی عبادت کرتے تھے ۔