‌صحيح البخاري - حدیث 3848

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَاب القَسَامَةِ فِي الجَاهِلِيَّةِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ أَخْبَرَنَا مُطَرِّفٌ سَمِعْتُ أَبَا السَّفَرِ يَقُولُ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اسْمَعُوا مِنِّي مَا أَقُولُ لَكُمْ وَأَسْمِعُونِي مَا تَقُولُونَ وَلَا تَذْهَبُوا فَتَقُولُوا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ فَلْيَطُفْ مِنْ وَرَاءِ الْحِجْرِ وَلَا تَقُولُوا الْحَطِيمُ فَإِنَّ الرَّجُلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ يَحْلِفُ فَيُلْقِي سَوْطَهُ أَوْ نَعْلَهُ أَوْ قَوْسَهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3848

کتاب: انصار کے مناقب باب: زمانہ جاہلیت کی قسامت کا بیان ہم سے عبد اللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو مطرف نے خبر دی ، کہا میں نے ابو السفرسے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا انہوں نے کہا اے لوگو ! میری باتیں سنوکہ میں تم سے بیان کرتا ہوں اور ( جو کچھ تم نے سمجھاہے ) وہ مجھے سناؤ ۔ ایسا نہ ہوکہ تم لوگ یہا ں سے اٹھ کر ( بغیر سمجھے ) چلے جاؤ اور پھر کہنے لگو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یوں کہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یوں کہا ۔ جو شخص بھی بیت اللہ کا طواف کرے تو وہ حطیم کے پیچھے سے طواف کرے اور حجر کو حطیم نہ کہا کرو یہ جاہلیتہ کا نام ہے اس وقت لوگوں میں جب کوئی کسی بات کی قسم کھا تا تو اپنا کوڑا ، جو تا یا کمان وہاں پھینک دیتا ۔
تشریح : اس لیے اس کو حطیم کہتے یعنی کھا جانے والا کیونکہ وہ ان کی اشیاءکو ہضم کرجاتا ، وہاں پڑے پڑے وہ چیزیں گل سڑجاتیں یا کوئی ان کو اٹھا لے جاتا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حطیم کی اسی مناسبت کے پیش نظر اسے حطیم کہنے سے منع کیا تھا لیکن عام اہل اسلام بغیر کسی نکیر کے اسے اب بھی حطیم ہی کہتے چلے آرہے ہیں اور یہ کعبہ ہی کی زمین ہے جسے قریش نے سرمایہ کی کمی کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔ اس لیے اس کو حطیم کہتے یعنی کھا جانے والا کیونکہ وہ ان کی اشیاءکو ہضم کرجاتا ، وہاں پڑے پڑے وہ چیزیں گل سڑجاتیں یا کوئی ان کو اٹھا لے جاتا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حطیم کی اسی مناسبت کے پیش نظر اسے حطیم کہنے سے منع کیا تھا لیکن عام اہل اسلام بغیر کسی نکیر کے اسے اب بھی حطیم ہی کہتے چلے آرہے ہیں اور یہ کعبہ ہی کی زمین ہے جسے قریش نے سرمایہ کی کمی کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔