‌صحيح البخاري - حدیث 3828

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ صحيح وَقَالَ اللَّيْثُ كَتَبَ إِلَيَّ هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَتْ رَأَيْتُ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَائِمًا مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ يَقُولُ يَا مَعَاشِرَ قُرَيْشٍ وَاللَّهِ مَا مِنْكُمْ عَلَى دِينِ إِبْرَاهِيمَ غَيْرِي وَكَانَ يُحْيِي الْمَوْءُودَةَ يَقُولُ لِلرَّجُلِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْتُلَ ابْنَتَهُ لَا تَقْتُلْهَا أَنَا أَكْفِيكَهَا مَئُونَتَهَا فَيَأْخُذُهَا فَإِذَا تَرَعْرَعَتْ قَالَ لِأَبِيهَا إِنْ شِئْتَ دَفَعْتُهَا إِلَيْكَ وَإِنْ شِئْتَ كَفَيْتُكَ مَئُونَتَهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3828

کتاب: انصار کے مناقب باب: حضرت زید بن عمرو بن نفیلؓ کابیان اورلیث بن سعدنے کہا کہ مجھے ہشام نے لکھا ، اپنے والد ( عروہ بن زبیر ) سے اور انہوںنے کہا کہ ہم سے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ میں نے زیدبن عمروبن نفیل کوکعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے کھڑے ہو کر یہ کہتے سنا ، اے قریش کے لوگو ! خدا کی قسم میرے سوا اور کوئی تمہارے یہاں دین ابراہیم پر نہیں ہے اور زید بیٹیوں کوزندہ نہیں گاڑتے تھے اور ایسے شخص سے جواپنی بیٹی کو مارڈالنا چاہتاکہتے اس کی جان نہ لے اس کے تمام اخراجات کاذمہ میں لیتاہوں ، چنانچہ لڑکی کو اپنی پرورش میں رکھ لیتے جب وہ بڑی ہوجاتی تو اس کے باپ سے کہتے اب اگر تم چاہو تو میں تمہاری لڑکی کو تمہارے حوالے کرسکتاہوں اوراگرتمہاری مرضی ہو تومیں اس کے سب کام پورے کردوں گا ۔
تشریح : بزار اور طبرانی نے یوں روایت کیا ہے کہ زید اور ورقہ دونوں دین حق کی تلاش میں شام کے ملک گئے ، ورقہ تو وہاں جا کرعیسائی ہو گیا اور زید کو یہ دین پسند نہیں آیا، پھرموصل میں آئے وہاں ایک پادری سے ملے جس نے دین نصرانی ان پر پیش کیا لیکن زید نے نہ مانا ، اسی روایت میں یہ ہے کہ سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زید کا حال پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے اس کو بخش دیا اور اس پر رحم کیا اور وہ دین ابراہیم علیہ السلام پر فوت ہوا، زید کا نسب نامہ یہ ہے زید بن عمرو بن نفیل بن عبدالعزی بن باح بن عبداللہ الخ یہ بزرگ بعثت نبوی سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے ، ان کے صاحبزادے سعید نامی نے اسلام قبول کیا جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، روایت میں مشرکین مکہ کا انصاب پر ذبیحہ کا ذکر آیا ہے اس سے وہ پتھرمراد ہیں جو کعبہ کے گرد لگے ہوئے تھے اور ان پر مشرکین اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر حاضری دینے سے زید نے اس لیے انکارکیا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قریش کا ایک فرد سمجھ کر گمان کرلیا کہ شاید دسترخوان پر تھانوں کا ذبیحہ پکایا گیا ہو اور وہ غیراللہ کے مذبوحہ جانور کاگوشت نہیں کھایا کرتے تھے ، جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدائش کے دن ہی سے معصوم تھے اور یہ ناممکن تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے قریش کے افعال شرکیہ میں شریک ہوتے ہوں، لہذا زید کا گمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح نہ تھا، فاکہی نے عامربن ربیعہ سے نکالا، مجھ سے زید نے یہ کہا کہ میں نے اپنی قوم کے برخلاف اسماعیل اور ابراہیم علیہ السلام کے دین کی پیروی کی ہے اور میں اس پیغمبرکا منتظرہوں جو آل اسماعیل میں پیدا ہو گا لیکن امید نہیں کہ میں اس کا زمانہ پاؤںمگرمیں اس پر ایمان لایا میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اس کے برحق پیغمبرہونے کی گواہی دیتا ہوں اگرتو زندہ رہے اور اس رسول کو پائے تو میرا سلام پہنچا دیجیؤ، عامررضی اللہ عنہ کہتے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے ان کا سلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں وعلیہ السلام فرمایا اور فرمایا میںنے اس کو بہشت میں کپڑا گھسیٹتے ہوئے دیکھا ہے زید مرحوم نے عربوں میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی رسم کی بھی مخالفت کی جیسا کہ روایت کے آخرمیں درج ہے۔ بزار اور طبرانی نے یوں روایت کیا ہے کہ زید اور ورقہ دونوں دین حق کی تلاش میں شام کے ملک گئے ، ورقہ تو وہاں جا کرعیسائی ہو گیا اور زید کو یہ دین پسند نہیں آیا، پھرموصل میں آئے وہاں ایک پادری سے ملے جس نے دین نصرانی ان پر پیش کیا لیکن زید نے نہ مانا ، اسی روایت میں یہ ہے کہ سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زید کا حال پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے اس کو بخش دیا اور اس پر رحم کیا اور وہ دین ابراہیم علیہ السلام پر فوت ہوا، زید کا نسب نامہ یہ ہے زید بن عمرو بن نفیل بن عبدالعزی بن باح بن عبداللہ الخ یہ بزرگ بعثت نبوی سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے ، ان کے صاحبزادے سعید نامی نے اسلام قبول کیا جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، روایت میں مشرکین مکہ کا انصاب پر ذبیحہ کا ذکر آیا ہے اس سے وہ پتھرمراد ہیں جو کعبہ کے گرد لگے ہوئے تھے اور ان پر مشرکین اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر حاضری دینے سے زید نے اس لیے انکارکیا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قریش کا ایک فرد سمجھ کر گمان کرلیا کہ شاید دسترخوان پر تھانوں کا ذبیحہ پکایا گیا ہو اور وہ غیراللہ کے مذبوحہ جانور کاگوشت نہیں کھایا کرتے تھے ، جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدائش کے دن ہی سے معصوم تھے اور یہ ناممکن تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے قریش کے افعال شرکیہ میں شریک ہوتے ہوں، لہذا زید کا گمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح نہ تھا، فاکہی نے عامربن ربیعہ سے نکالا، مجھ سے زید نے یہ کہا کہ میں نے اپنی قوم کے برخلاف اسماعیل اور ابراہیم علیہ السلام کے دین کی پیروی کی ہے اور میں اس پیغمبرکا منتظرہوں جو آل اسماعیل میں پیدا ہو گا لیکن امید نہیں کہ میں اس کا زمانہ پاؤںمگرمیں اس پر ایمان لایا میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اس کے برحق پیغمبرہونے کی گواہی دیتا ہوں اگرتو زندہ رہے اور اس رسول کو پائے تو میرا سلام پہنچا دیجیؤ، عامررضی اللہ عنہ کہتے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے ان کا سلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں وعلیہ السلام فرمایا اور فرمایا میںنے اس کو بہشت میں کپڑا گھسیٹتے ہوئے دیکھا ہے زید مرحوم نے عربوں میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی رسم کی بھی مخالفت کی جیسا کہ روایت کے آخرمیں درج ہے۔