کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ لِلْأَنْصَارِ: «اصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الحَوْضِ» صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ خَرَجَ مَعَهُ إِلَى الْوَلِيدِ قَالَ دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارَ إِلَى أَنْ يُقْطِعَ لَهُمْ الْبَحْرَيْنِ فَقَالُوا لَا إِلَّا أَنْ تُقْطِعَ لِإِخْوَانِنَا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مِثْلَهَا قَالَ إِمَّا لَا فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي فَإِنَّهُ سَيُصِيبُكُمْ بَعْدِي أَثَرَةٌ
کتاب: انصار کے مناقب
باب: نبی کریم ﷺ کا انصار سے یہ فرمانا کہ
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہاہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا.... جب وہ انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے یہاں جانے کے لیے نکلے.... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا ملک بطور جاگیر انہیں عطا فرمادیں ، انصار نے کہا جب تک آپ ہمارے بھائی مہاجرین کو بھی اسی جیسی جاگیر نہ عطا فرمائیں ہم اسے قبول نہیں کریں گے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو جب آج تم قبول نہیں کرتے ہو تو پھر میرے بعد بھی صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آملو ، کیونکہ میرے بعد قریب ہی تمہاری حق تلفی ہونے والی ہے ۔
تشریح :
یعنی دوسرے غیر مستحق لوگ عہدوں پر مقرر ہوں گے اور تم کو محروم کردیا جائے گا ، بنی امیہ کے زمانے میں ایسا ہی ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی، مگر انصار نے فی الواقع صبر سے کام لے کر وصیت نبوی پر پورا عمل کیا رضی اللہ عنہم ورضواعنہ، یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کو عبدالملک بن مروان نے ستایا تھا اور وہ بصرہ سے دمشق جاکر ولید بن عبدالملک کے ہاں اپنی شکایات لے کر پہنچے تھے، آخر ولید بن عبدالملک ( حاکم وقت ) نے ان کا حق دلایا ۔ ( فتح الباری
یعنی دوسرے غیر مستحق لوگ عہدوں پر مقرر ہوں گے اور تم کو محروم کردیا جائے گا ، بنی امیہ کے زمانے میں ایسا ہی ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی، مگر انصار نے فی الواقع صبر سے کام لے کر وصیت نبوی پر پورا عمل کیا رضی اللہ عنہم ورضواعنہ، یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کو عبدالملک بن مروان نے ستایا تھا اور وہ بصرہ سے دمشق جاکر ولید بن عبدالملک کے ہاں اپنی شکایات لے کر پہنچے تھے، آخر ولید بن عبدالملک ( حاکم وقت ) نے ان کا حق دلایا ۔ ( فتح الباری