‌صحيح البخاري - حدیث 3789

کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ فَضْلِ دُورِ الأَنْصَارِ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ ثُمَّ بَنُو عَبْدِ الْأَشْهَلِ ثُمَّ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ خَزْرَجٍ ثُمَّ بَنُو سَاعِدَةَ وَفِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَيْرٌ فَقَالَ سَعْدٌ مَا أَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَدْ فَضَّلَ عَلَيْنَا فَقِيلَ قَدْ فَضَّلَكُمْ عَلَى كَثِيرٍ وَقَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ سَمِعْتُ أَنَسًا قَالَ أَبُو أُسَيْدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا وَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3789

کتاب: انصار کے مناقب باب: انصار کے گھرانوں کی فضیلت کا بیان مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہاہم سے غندر نے بیان کیا ، کہاہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا ، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، بنو نجار کا گھرانہ انصار میں سے سب سے بہتر گھرانہ ہے پھر بنو عبدالاشہل کا ، جو اوس کا بھائی تھا ، خزرج اکبر اور اوس دونوں حارثہ کے بیٹے تھے اور انصار کا ہر گھرانہ عمدہ ہی ہے ۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے کئی قبیلوں کو ہم پر فضیلت دی ہے ، ان سے کسی نے کہا تجھ کو بھی تو بہت سے قبیلوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت دی ہے اور عبدالصمد نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے بیان کیا ، میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا اور ان سے ابواسید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث بیان کی ، اس روایت میںسعد کے باپ کا نام عبادہ مذکور ہے ۔
تشریح : جنہوں نے یہ کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اوروں کو ہم پر فضیلت دی، جب سعد بن عبادہ نے یہ کہا تو ان کے بھتیجے سہل نے ان سے کہا کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہو، آپ خوب جانتے ہیں کہ ( کون کس سے افضل ہے ) بنو نجارقبیلہ خزرج سے ہیں، ان کے دادا تیم اللہ بن ثعلبہ بن عمرو خزرجی نے ایک آدمی پر حملہ کرکے اسے کاٹ دیا تھا، اس پر ان کالقب نجار ہوگیا، ( فتح الباری ) حافظ صاحب فرماتے ہیں: بنو النجار ھم اخوان جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان والدہ عبدالمطلب منھم وعلیھم نزل لما قدم المدینۃ فلھم مزیۃ علی غیر ھم وکان انس منھم فلہ مزید عنایۃ تحفظ فضائلھم ( فتح الباری ) یعنی بنو نجار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں ہوتے ہیں اس لیے کہ عبدالمطلب آپ کے دادا محترم کی والدہ بنو نجار کی بیٹی تھیں، اس لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو پہلے بنو نجار ہی کے مہمان ہوئے، اس لیے ان کے لیے مزید فضیلت ثابت ہوئی، حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی اسی خاندان سے تھے، اسی لیے ان پر عنایات نبوی زیادہ تھیں۔ اس روایت میں یہاں کچھ اجمال ہے جسے مسلم کی روایت نے کھول دیا ہے جو یہ ہے حدثنا یحییٰ بن یحییٰ التمیمی انا المغیرۃ بن عبدالرحمن عن ابی الزناد قال شھدا ابو سلمۃ لسمع ابا اسید الانصاری یشھد ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال دور الانصار بنو النجار ثم بنو عبدالاشھل ثم بنو الحارث بن خزرج ثم بنو ساعدۃ وفی دور الانصار خیر قال ابوسلمۃ قال ابو اسید اتاھم انا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لو کنت کاذبا لبدات قومی بنی ساعدۃ وبلغ ذلک سعد بن عبادۃ فوجد فی نفسہ وقال خلفنا فکنا اخر الاربع اسر جوالی حماری اتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکلمہ ابن اخی سھل فقال اتذھب لترد علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم اولیس حسبک ان تکون رابع اربع فرجع وقال اللہ ورسولہ اعلم وامر بحمارہ فحل عنہ ( صحیح مسلم ج 2 ص305 ) خلاصہ یہ کہ جب حضرت سعد بن عبادہ نے یہ سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قبیلہ کا ذکر چوتھے درجے پر فرمایا ہے تویہ غصہ ہوکر آپ کی خدمت شریف میں اپنے گدھے پر سوا ر ہوکر جانے لگے مگر ان کے بھتیجے سہل نے ان سے کہا کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تردید کرنے جارہے ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ جاننے والے ہیں ، کیا آپ کے شرف کے لیے یہ کافی نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھے درجہ پر بطور شرف آپ کے قبیلے کا نام لے کر ذکر فرمایا جب کہ بہت سے اور قبائل انصار کے لیے آپ نے صرف اجمالا ذکر خیر فرمادیا ہے یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہ نے اپنے خیال سے رجوع کیا اور کہنے لگے ہاں بے شک اللہ و رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، فوراً اپنی سواری سے زین کو اتار کر رکھ دیا۔ جنہوں نے یہ کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اوروں کو ہم پر فضیلت دی، جب سعد بن عبادہ نے یہ کہا تو ان کے بھتیجے سہل نے ان سے کہا کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہو، آپ خوب جانتے ہیں کہ ( کون کس سے افضل ہے ) بنو نجارقبیلہ خزرج سے ہیں، ان کے دادا تیم اللہ بن ثعلبہ بن عمرو خزرجی نے ایک آدمی پر حملہ کرکے اسے کاٹ دیا تھا، اس پر ان کالقب نجار ہوگیا، ( فتح الباری ) حافظ صاحب فرماتے ہیں: بنو النجار ھم اخوان جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان والدہ عبدالمطلب منھم وعلیھم نزل لما قدم المدینۃ فلھم مزیۃ علی غیر ھم وکان انس منھم فلہ مزید عنایۃ تحفظ فضائلھم ( فتح الباری ) یعنی بنو نجار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں ہوتے ہیں اس لیے کہ عبدالمطلب آپ کے دادا محترم کی والدہ بنو نجار کی بیٹی تھیں، اس لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو پہلے بنو نجار ہی کے مہمان ہوئے، اس لیے ان کے لیے مزید فضیلت ثابت ہوئی، حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی اسی خاندان سے تھے، اسی لیے ان پر عنایات نبوی زیادہ تھیں۔ اس روایت میں یہاں کچھ اجمال ہے جسے مسلم کی روایت نے کھول دیا ہے جو یہ ہے حدثنا یحییٰ بن یحییٰ التمیمی انا المغیرۃ بن عبدالرحمن عن ابی الزناد قال شھدا ابو سلمۃ لسمع ابا اسید الانصاری یشھد ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال دور الانصار بنو النجار ثم بنو عبدالاشھل ثم بنو الحارث بن خزرج ثم بنو ساعدۃ وفی دور الانصار خیر قال ابوسلمۃ قال ابو اسید اتاھم انا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لو کنت کاذبا لبدات قومی بنی ساعدۃ وبلغ ذلک سعد بن عبادۃ فوجد فی نفسہ وقال خلفنا فکنا اخر الاربع اسر جوالی حماری اتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکلمہ ابن اخی سھل فقال اتذھب لترد علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم اولیس حسبک ان تکون رابع اربع فرجع وقال اللہ ورسولہ اعلم وامر بحمارہ فحل عنہ ( صحیح مسلم ج 2 ص305 ) خلاصہ یہ کہ جب حضرت سعد بن عبادہ نے یہ سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قبیلہ کا ذکر چوتھے درجے پر فرمایا ہے تویہ غصہ ہوکر آپ کی خدمت شریف میں اپنے گدھے پر سوا ر ہوکر جانے لگے مگر ان کے بھتیجے سہل نے ان سے کہا کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تردید کرنے جارہے ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ جاننے والے ہیں ، کیا آپ کے شرف کے لیے یہ کافی نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھے درجہ پر بطور شرف آپ کے قبیلے کا نام لے کر ذکر فرمایا جب کہ بہت سے اور قبائل انصار کے لیے آپ نے صرف اجمالا ذکر خیر فرمادیا ہے یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہ نے اپنے خیال سے رجوع کیا اور کہنے لگے ہاں بے شک اللہ و رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، فوراً اپنی سواری سے زین کو اتار کر رکھ دیا۔