کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ بَابُ فَضْلِ عَائِشَةَ ؓ صحيح حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَانَ فِي مَرَضِهِ جَعَلَ يَدُورُ فِي نِسَائِهِ وَيَقُولُ أَيْنَ أَنَا غَدًا أَيْنَ أَنَا غَدًا حِرْصًا عَلَى بَيْتِ عَائِشَةَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَلَمَّا كَانَ يَوْمِي سَكَنَ
کتاب: نبی کریمﷺ کے اصحاب کی فضیلت
باب: حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں بھی ازواج مطہرات کی باری کی پابندی فرماتے رہے البتہ یہ دریافت فرماتے رہے کہ کل مجھے کس کے یہاں ٹھہرنا ہے ؟ کیوں کہ آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے خواہاں تھے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب میرے یہاں قیام کا دن آیا تو آپ کو سکون ہوا ۔
تشریح :
اب آپ نے یہ پوچھنا چھوڑدیا کہ کل میں کہاں رہوں گا، حافظ نے سبکی سے نقل کیا کہ ہمارے نزدیک پہلے حضرت فاطمہ افضل ہیں ، پھر خدیجہ ، پھر عائشہ رضی اللہ عنہم ۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا اور عائشہ رضی اللہ عنہما میں توقف کیا ہے، امام ابن قیم نے کہا: اگر فضیلت سے مراد کثرت ثواب ہے تب تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اگر علم مراد ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا افضل ہیں، اگر خاندانی شرافت مراد ہے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا افضل ہیں۔
اب آپ نے یہ پوچھنا چھوڑدیا کہ کل میں کہاں رہوں گا، حافظ نے سبکی سے نقل کیا کہ ہمارے نزدیک پہلے حضرت فاطمہ افضل ہیں ، پھر خدیجہ ، پھر عائشہ رضی اللہ عنہم ۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا اور عائشہ رضی اللہ عنہما میں توقف کیا ہے، امام ابن قیم نے کہا: اگر فضیلت سے مراد کثرت ثواب ہے تب تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اگر علم مراد ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا افضل ہیں، اگر خاندانی شرافت مراد ہے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا افضل ہیں۔