کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ بَابُ فَضْلِ عَائِشَةَ ؓ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ قَالَ لَمَّا بَعَثَ عَلِيٌّ عَمَّارًا وَالْحَسَنَ إِلَى الْكُوفَةِ لِيَسْتَنْفِرَهُمْ خَطَبَ عَمَّارٌ فَقَالَ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّهَا زَوْجَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَكِنَّ اللَّهَ ابْتَلَاكُمْ لِتَتَّبِعُوهُ أَوْ إِيَّاهَا
کتاب: نبی کریمﷺ کے اصحاب کی فضیلت
باب: حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے حکم نے اور انہوں نے ابووائل سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ جب علی رضی اللہ عنہ نے عمار اور حسن رضی اللہ عنہما کو کوفہ بھیجا تھا تا کہ لوگوں کو اپنی مدد کے لیے تیار کریں تو عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : مجھے بھی خوب معلوم ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں آزمانا چاہتا ہے کہ دیکھے تم علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کرتے ہو ( جو برحق خلیفہ ہیں ) یا عائشہ رضی اللہ عنہا کی ۔
تشریح :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں کے بھڑکانے میں آگئیں، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس بات پر لڑنے کو مستعد ہوگئیں کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہیں لیتے، حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ کہتے تھے کہ پہلے سب لوگوں کو ایک ہوجانے دو ، پھر اچھی طرح دریافت کرکے جس پر قتل ثابت ہوگا اس سے قصاص لیاجائے گا، خدا کے حکم سے یہ آیت مراد ہے وقرن فی بیوتکن ( الاحزاب: 33 ) جو خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لیے اتری ہے، یہاں تک کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ فرماتی تھیں میں تو اونٹ پرسوار ہوکر حرکت کرنے والی نہیں جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ مل جاؤں یعنی مرتے دم تک اپنے گھر میں رہوں گی، حافظ نے کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ یہ سب حضرات مجتہد تھے، ان کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں میں آپس میں اتفاق کرادینا ضروری ہے، اور یہ اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے قصاص نہ لیاجاتا۔ ( وحیدی )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں کے بھڑکانے میں آگئیں، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس بات پر لڑنے کو مستعد ہوگئیں کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہیں لیتے، حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ کہتے تھے کہ پہلے سب لوگوں کو ایک ہوجانے دو ، پھر اچھی طرح دریافت کرکے جس پر قتل ثابت ہوگا اس سے قصاص لیاجائے گا، خدا کے حکم سے یہ آیت مراد ہے وقرن فی بیوتکن ( الاحزاب: 33 ) جو خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لیے اتری ہے، یہاں تک کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ فرماتی تھیں میں تو اونٹ پرسوار ہوکر حرکت کرنے والی نہیں جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ مل جاؤں یعنی مرتے دم تک اپنے گھر میں رہوں گی، حافظ نے کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ یہ سب حضرات مجتہد تھے، ان کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں میں آپس میں اتفاق کرادینا ضروری ہے، اور یہ اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے قصاص نہ لیاجاتا۔ ( وحیدی )