کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ بَابُ ذِكْرِ مُعَاوِيَةَ ؓ صحيح حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ هَلْ لَكَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُ مَا أَوْتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَةٍ قَالَ أَصَابَ إِنَّهُ فَقِيهٌ
کتاب: نبی کریمﷺ کے اصحاب کی فضیلت
باب: حضرت معاویہ ؓکا بیان
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا ، کہا مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ٹھیک کیا وہ فقیہ ہیں ۔
تشریح :
ایک رکعت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، غالبا اسی حدیث پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عمل تھا، جماعت اہل حدیث کا آج بھی اکثر اسی حدیث پر عمل ہے، یوں تو7-5-3 رکعات وتر بھی جائز ہیں مگر وتر آخری ایک رکعت ہی کانام ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو فقیہ جانتے تھے اور ان کے عمل شرعی کو حجت گردانتے تھے، اس سے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت ثابت ہوتی ہے اور یہی ترجمہ باب سے مطابقت ہے۔
ایک رکعت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، غالبا اسی حدیث پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عمل تھا، جماعت اہل حدیث کا آج بھی اکثر اسی حدیث پر عمل ہے، یوں تو7-5-3 رکعات وتر بھی جائز ہیں مگر وتر آخری ایک رکعت ہی کانام ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو فقیہ جانتے تھے اور ان کے عمل شرعی کو حجت گردانتے تھے، اس سے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت ثابت ہوتی ہے اور یہی ترجمہ باب سے مطابقت ہے۔