كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الأَحْمَرِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلاَلًا أَخَذَ وَضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُونَ ذَاكَ الوَضُوءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ، ثُمَّ رَأَيْتُ بِلاَلًا أَخَذَ عَنَزَةً، فَرَكَزَهَا وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ، مُشَمِّرًا [ص:85] صَلَّى إِلَى العَنَزَةِ بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ يَمُرُّونَ مِنْ بَيْنِ يَدَيِ العَنَزَةِ»
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
باب: سرخ رنگ کے کپڑے میں نماز پڑھنا
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر ابن ابی زائدہ نے بیان کیا عون بن ابی حجیفہ سے، انھوں نے اپنے والد ابوحجیفہ وہب بن عبداللہ سے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سرخ چمڑے کے خیمہ میں دیکھا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرا رہے ہیں اور ہر شخص آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کسی کو تھوڑا سا بھی پانی مل جاتا تو وہ اسے اپنے اوپر مل لیتا اور اگر کوئی پانی نہ پا سکتا تو اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ پھر میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے اپنی ایک برچھی اٹھائی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا تھا اور اسے انھوں نے گاڑ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ڈیرے میں سے ) ایک سرخ پوشاک پہنے ہوئے تہبند اٹھائے ہوئے باہر تشریف لائے اور برچھی کی طرف منہ کر کے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی، میں نے دیکھا کہ آدمی اور جانور برچھی کے پرے سے گزر رہے تھے۔
تشریح :
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا کہ آپ کا یہ جوڑا نرا سرخ نہ تھا بلکہ اس میں سرخ اور کالی دھاریاں تھیں۔ سرخ رنگ کے متعلق حافظ ابن حجر نے سات مذہب بیان کئے ہیں اور کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ کافروں یا عورتوں کی مشابہت کی نیت سے مرد کو سرخ رنگ والے کپڑے پہننے درست نہیں ہیں اور کسم میں رنگا ہوا کپڑا مردوں کے لیے بالاتفاق ناجائز ہے۔ اسی طرح لال زین پوشوں کا استعمال جس کی ممانعت میں صاف حدیث موجود ہے۔ ڈیرے سے نکلتے وقت آپ کی پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں۔ مسلم کی روایت میں ہے، گویا میں آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سترہ کے باہر سے کوئی آدمی نمازی کے آگے سے نکلے تو کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ نماز میں خلل ہوتا ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا کہ آپ کا یہ جوڑا نرا سرخ نہ تھا بلکہ اس میں سرخ اور کالی دھاریاں تھیں۔ سرخ رنگ کے متعلق حافظ ابن حجر نے سات مذہب بیان کئے ہیں اور کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ کافروں یا عورتوں کی مشابہت کی نیت سے مرد کو سرخ رنگ والے کپڑے پہننے درست نہیں ہیں اور کسم میں رنگا ہوا کپڑا مردوں کے لیے بالاتفاق ناجائز ہے۔ اسی طرح لال زین پوشوں کا استعمال جس کی ممانعت میں صاف حدیث موجود ہے۔ ڈیرے سے نکلتے وقت آپ کی پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں۔ مسلم کی روایت میں ہے، گویا میں آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سترہ کے باہر سے کوئی آدمی نمازی کے آگے سے نکلے تو کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ نماز میں خلل ہوتا ہے۔