‌صحيح البخاري - حدیث 3755

کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ بَابُ مَنَاقِبِ بِلاَلِ بْنِ رَبَاحٍ، مَوْلَى أَبِي بَكْرٍؓ وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الجَنَّةِ صحيح حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنْ قَيْسٍ أَنَّ بِلَالًا قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ إِنْ كُنْتَ إِنَّمَا اشْتَرَيْتَنِي لِنَفْسِكَ فَأَمْسِكْنِي وَإِنْ كُنْتَ إِنَّمَا اشْتَرَيْتَنِي لِلَّهِ فَدَعْنِي وَعَمَلَ اللَّهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3755

کتاب: نبی کریمﷺ کے اصحاب کی فضیلت باب: حضرت بلال بن رباح کے فضائل ہم سے ابن نمیر نے بیان کیا ، ان سے محمد بن عبید نے کہا ، ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، اور ان سے قیس نے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا ، اگر آپ نے مجھے اپنے لیے خریدا ہے تو پھر اپنے پاس ہی رکھئے اور اگر اللہ کے لیے خریدا ہے تو پھر مجھے آزاد کردیجئے اور اللہ کے راستے میں عمل کرنے دیجئے ۔
تشریح : ہوایہ تھا کہ بلال رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صبر نہ ہوسکا، ہر وقت اذان میں آپ کا نام آتا، آپ کی یاد سے قبر شریف کو دیکھ کر زخم تازہ ہوتا۔ اس لیے بلال رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے چلے گئے، چھ مہینے کے بعد آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، فرماتے ہیں: بلال ! کیا ظلم ہے، تو نے ہم کو چھوڑ دیا، بلال نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حال پوچھا، معلوم ہوا کہ انتقال پاگئیں، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلاکر گلے لگایا، خوب روئے، لوگوں نے حسن رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کہو تو بلال اذان دیں گے۔ انہوں نے فرمائش کی، بلال رضی اللہ عنہ اذان کے لیے کھڑے ہوئے جب ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “ پر پہنچے تو روتے روتے بے ہوش ہوکر گرے، لوگ بھی رونے لگے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد سے ایک کہرام مچ گیا، اللھم صل علیہ وبارک وسلم، ہمارے پیرومرشد شیخ احمد مجدد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بلال رضی اللہ عنہ حبشی تھے، ۔ اذان میں اشہد کے بدل اسہد کہتے شین کو سین کہتے مگر ان کا اسہد ہم لوگوں کے ہزار بار اشہد پر فضیلت رکھتا تھا۔ وہ عاشق رسول تھے ہم گنہگار نابکار، یا اللہ ! بلا ل رضی اللہ عنہ کے کفش برداروں ہی میں ہم کو رکھ لے۔ آمین یار ب العالمین ( وحیدی ) ہوایہ تھا کہ بلال رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صبر نہ ہوسکا، ہر وقت اذان میں آپ کا نام آتا، آپ کی یاد سے قبر شریف کو دیکھ کر زخم تازہ ہوتا۔ اس لیے بلال رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے چلے گئے، چھ مہینے کے بعد آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، فرماتے ہیں: بلال ! کیا ظلم ہے، تو نے ہم کو چھوڑ دیا، بلال نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حال پوچھا، معلوم ہوا کہ انتقال پاگئیں، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلاکر گلے لگایا، خوب روئے، لوگوں نے حسن رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کہو تو بلال اذان دیں گے۔ انہوں نے فرمائش کی، بلال رضی اللہ عنہ اذان کے لیے کھڑے ہوئے جب ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “ پر پہنچے تو روتے روتے بے ہوش ہوکر گرے، لوگ بھی رونے لگے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد سے ایک کہرام مچ گیا، اللھم صل علیہ وبارک وسلم، ہمارے پیرومرشد شیخ احمد مجدد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بلال رضی اللہ عنہ حبشی تھے، ۔ اذان میں اشہد کے بدل اسہد کہتے شین کو سین کہتے مگر ان کا اسہد ہم لوگوں کے ہزار بار اشہد پر فضیلت رکھتا تھا۔ وہ عاشق رسول تھے ہم گنہگار نابکار، یا اللہ ! بلا ل رضی اللہ عنہ کے کفش برداروں ہی میں ہم کو رکھ لے۔ آمین یار ب العالمین ( وحیدی )