كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ إِذَا صَلَّى فِي ثَوْبٍ لَهُ أَعْلاَمٌ وَنَظَرَ إِلَى عَلَمِهَا صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلاَمٌ، فَنَظَرَ إِلَى أَعْلاَمِهَا نَظْرَةً، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: «اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَأْتُونِي بِأَنْبِجَانِيَّةِ أَبِي جَهْمٍ، فَإِنَّهَا أَلْهَتْنِي آنِفًا عَنْ صَلاَتِي» وَقَالَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُنْتُ أَنْظُرُ إِلَى عَلَمِهَا، وَأَنَا فِي الصَّلاَةِ فَأَخَافُ أَنْ تَفْتِنَنِي»
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
باب: بیل لگے ہوئے کپڑوں میں نماز پڑھنا
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں ابراہیم بن سعد نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی۔ جس میں نقش و نگار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک مرتبہ دیکھا۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میری یہ چادر ابوجہم ( عامر بن حذیفہ ) کے پاس لے جاؤ اور ان کی انبجانیہ والی چادر لے آؤ، کیونکہ اس چادر نے ابھی نماز سے مجھ کو غافل کر دیا۔ اور ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نماز میں اس کے نقش و نگار دیکھ رہا تھا، پس میں ڈرا کہ کہیں یہ مجھے غافل نہ کر دے۔
تشریح :
حضرت عامربن حذیفہ صحابی ابوجہم نے یہ نقش ونگاروالی چادرآپ کو تحفہ میں پیش کی تھی۔ آپ نے اسے واپس کردیا اور سادہ چادران سے منگالی تاکہ ان کو رنج نہ ہوکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میراتحفہ واپس کردیا۔ معلوم ہوا کہ جو چیز نماز کے اندر خلل کا سبب بن سکے اس کو علیحدہ کرنا ہی اچھا ہے۔ ہشام بن عروہ کی تعلیق کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ اور مسلم اور ابوداؤد نے نکالا ہے۔
حضرت عامربن حذیفہ صحابی ابوجہم نے یہ نقش ونگاروالی چادرآپ کو تحفہ میں پیش کی تھی۔ آپ نے اسے واپس کردیا اور سادہ چادران سے منگالی تاکہ ان کو رنج نہ ہوکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میراتحفہ واپس کردیا۔ معلوم ہوا کہ جو چیز نماز کے اندر خلل کا سبب بن سکے اس کو علیحدہ کرنا ہی اچھا ہے۔ ہشام بن عروہ کی تعلیق کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ اور مسلم اور ابوداؤد نے نکالا ہے۔