‌صحيح البخاري - حدیث 3707

کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ بَابُ مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ القُرَشِيِّ الهَاشِمِيِّ أَبِي الحَسَنِ ؓ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ اقْضُوا كَمَا كُنْتُمْ تَقْضُونَ فَإِنِّي أَكْرَهُ الِاخْتِلَافَ حَتَّى يَكُونَ لِلنَّاسِ جَمَاعَةٌ أَوْ أَمُوتَ كَمَا مَاتَ أَصْحَابِي فَكَانَ ابْنُ سِيرِينَ يَرَى أَنَّ عَامَّةَ مَا يُرْوَى عَنْ عَلِيٍّ الْكَذِبُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3707

کتاب: نبی کریمﷺ کے اصحاب کی فضیلت باب: حضرت علی ؓ کے فضائل۔۔۔ ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا ، کہاہم کو شعبہ نے خبردی ، انہیں ایوب نے ، انہیں ابن سیرین نے ، انہیں عبیدہ نے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عراق والوں سے کہا کہ جس طرح تم پہلے فیصلہ کیا کرتے تھے اب بھی کیا کرو کیونکہ میں اختلاف کو برا جانتاہوں ۔ اس وقت تک کہ سب لوگ جمع ہوجائیں یا میں بھی اپنے ساتھیوں ( ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ) کی طرح دنیا سے چلاجاو¿ں ، ابن سیرین رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ عام لوگ ( روافض ) جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایات ( شیخین کی مخالفت میں ) بیان کرتے ہیں وہ قطعا جھوٹی ہیں ۔
تشریح : لفظ رافضی رفض سے مشتق ہے، محققین کہتے ہیں کہ ان شیعوں کانام رافضی اس لیے ہوا کہ لانھم رفضوا زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب بعدم تبریئہ من ابی بکر وعمر ۔ واقعہ یہ ہے ہواتھاکہ حضرت زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ کو فہ تشریف لائے اور لوگوں کو تبلیغ کی، بہت سے لوگوں نے ان سے بیعت کی مگر ایک جماعت نے کہا کہ جب تک آپ ابوبکر وعمر کو برانہ کہیں گے ہم آپ سے بیعت نہ کریں گے، حضرت زید نے ان کی اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور وہ امر حق پر قائم رہے۔ اس وقت اس جماعت نے یہ نعرہ بلند کیا نحن نرفضک ہم تم کو چھوڑتے ہیں۔ اس وقت سے یہ گروہ رافضی کے نام سے موسوم ہوا۔ حضرت پیر جیلا نی رحمہ اللہ نے اس گروہ کی سخت مذمت کی ہے اس گروہ کے مقابلہ پر خارجی ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر خروج کیا اور منبر پر ان کی برائی شروع کی، ہردوفریق گمراہ ہیں، اعتدال اہل سنت کا ہے جو سب صحابہ رضی اللہ عنہم کی عزت کرتے ہیں اور کسی کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے ان کی لغزشوں کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں۔ روایت میں مذکور بزرگ عبیدہ رضی اللہ عنہ عراق کے قاضی تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول یہ تھا کہ ام ولد کی بیع درست نہیں ہے، حضرت علی کا خیال تھا کہ ام ولد کی بیع درست ہے، عبیدہ نے یہ عرض کیا کہ ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کے زمانے میں توہم ام ولد کی بیع کی ناجوازی کا فتویٰ دیتے رہے ہیں۔ اب آپ رضی اللہ عنہ کا کیا حکم ہے؟ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ اب بھی وہی فیصلہ کرو۔ لفظ رافضی رفض سے مشتق ہے، محققین کہتے ہیں کہ ان شیعوں کانام رافضی اس لیے ہوا کہ لانھم رفضوا زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب بعدم تبریئہ من ابی بکر وعمر ۔ واقعہ یہ ہے ہواتھاکہ حضرت زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ کو فہ تشریف لائے اور لوگوں کو تبلیغ کی، بہت سے لوگوں نے ان سے بیعت کی مگر ایک جماعت نے کہا کہ جب تک آپ ابوبکر وعمر کو برانہ کہیں گے ہم آپ سے بیعت نہ کریں گے، حضرت زید نے ان کی اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور وہ امر حق پر قائم رہے۔ اس وقت اس جماعت نے یہ نعرہ بلند کیا نحن نرفضک ہم تم کو چھوڑتے ہیں۔ اس وقت سے یہ گروہ رافضی کے نام سے موسوم ہوا۔ حضرت پیر جیلا نی رحمہ اللہ نے اس گروہ کی سخت مذمت کی ہے اس گروہ کے مقابلہ پر خارجی ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر خروج کیا اور منبر پر ان کی برائی شروع کی، ہردوفریق گمراہ ہیں، اعتدال اہل سنت کا ہے جو سب صحابہ رضی اللہ عنہم کی عزت کرتے ہیں اور کسی کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے ان کی لغزشوں کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں۔ روایت میں مذکور بزرگ عبیدہ رضی اللہ عنہ عراق کے قاضی تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول یہ تھا کہ ام ولد کی بیع درست نہیں ہے، حضرت علی کا خیال تھا کہ ام ولد کی بیع درست ہے، عبیدہ نے یہ عرض کیا کہ ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کے زمانے میں توہم ام ولد کی بیع کی ناجوازی کا فتویٰ دیتے رہے ہیں۔ اب آپ رضی اللہ عنہ کا کیا حکم ہے؟ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ اب بھی وہی فیصلہ کرو۔