‌صحيح البخاري - حدیث 369

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ مَا يَسْتُرُ مِنَ العَوْرَةِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ فِي تِلْكَ الحَجَّةِ فِي مُؤَذِّنِينَ [ص:83] يَوْمَ النَّحْرِ، نُؤَذِّنُ بِمِنًى: أَنْ لاَ يَحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِكٌ وَلاَ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: ثُمَّ أَرْدَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، فَأَمَرَهُ أَنْ يُؤَذِّنَ بِبَرَاءَةٌ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَأَذَّنَ مَعَنَا عَلِيٌّ فِي أَهْلِ مِنًى يَوْمَ النَّحْرِ: «لاَ يَحُجُّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِكٌ وَلاَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 369

کتاب: نماز کے احکام و مسائل باب: ستر عورت کا بیان ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے میرے بھائی ابن شہاب نے اپنے چچا کے واسطہ سے، انھوں نے کہا مجھے حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس حج کے موقع پر مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یوم نحر ( ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ) میں اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا۔ تا کہ ہم منیٰ میں اس بات کا اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکتا اور کوئی شخص ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتا۔ حمید بن عبدالرحمن نے کہا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ وہ سورہ برات پڑھ کر سنا دیں اور اس کے مضامین کا عام اعلان کر دیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ نحر کے دن منیٰ میں دسویں تاریخ کو یہ سنایا کہ آج کے بعد کوئی مشرک نہ حج کر سکے گا اور نہ بیت اللہ کا طواف کوئی شخص ننگے ہو کر کر سکے گا۔
تشریح : مذکورہ امور کی ممانعت اس لیے کردی گئی کیونکہ بیت اللہ کی خدمت وحفاظت اب مسلمانوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ تشریح : جب ننگے ہوکر طواف کرنا منع ہوا تو ستر پوشی طواف میں ضرور واجب ہوگئی، اسی طرح نماز میں بطریق اولیٰ ستر پوشی واجب ہوگی۔ سورۃ توبہ کے نازل ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی آگاہی کے لیے پہلے سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ پھر آپ کو یہ خیال آیاکہ معاہدہ کو توڑنے کا حق دستورعرب کے مطابق اسی کو ہے، جس نے خود معاہدہ کیا ہے یا کوئی اس کے خاص گھروالوں سے ہونا چاہئیے۔ اس لیے آپ نے پیچھے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ فرمادیا۔ قریش مکہ کی بدعہدی کی آخری مثال صلح حدیبیہ تھی۔ طے ہوا تھا کہ ایک طرف مسلمان اور ان کے حلیف ہوں گے اور دوسری طرف قریش اور ان کے حلیف، مسلمانوں کے ساتھ قبیلہ خزاعہ شریک ہوا اور قریش کے ساتھ بنوبکر۔ صلح کی بنیادی شرط یہ تھی کہ دس برس تک دونوں فریق صلح وامن سے رہیں گے۔ مگرابھی دوسال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ بنوبکر نے خزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش نے ان کی مدد کی۔ بنوخزاعہ نے کعبہ میں اللہ کے نام پر امان مانگی، پھر بھی وہ بے دریغ قتل کئے گئے۔ صرف چالیس آدمی بچ کر مدینہ پہنچے اور سارا حال زار پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ اب معاہدہ کی رو سے آپ کے لیے ضروری ہوگیا کہ قریش کو ان کی بدعہدی کی سزادی جائے۔ چنانچہ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور بغیر کسی خون ریزی کے مکہ شریف فتح ہوگیا۔ جس کے بعد 9ہجری میں اس سورۃ شریفہ کی ابتدائی دس آیات نازل ہوئیں اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا امیرحج بناکر بھیجا۔ یہ حجۃ الوداع سے پہلے کا واقعہ ہے بعد میں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مکہ شریف بھیجاتاکہ وہ سورۃ توبہ کی ان آیات کا کھلے عام اعلان کردیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں ذرا سا خیال پیدا ہوا کہ کہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خفا تو نہیں ہوگئے جوبعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی اسی مقصد کے لیے بھیجنا ضروری سمجھا۔ اس پر آپ نے ان کی تشفی فرمائی اور بتلایا کہ دستور عرب کے تحت مجھ کو علی رضی اللہ عنہ کا بھیجنا ضروری ہوا، ورنہ آپ میرے یارغار ہیں۔ بلکہ حوض کوثر پر بھی آپ ہی کو رفاقت رہے گی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ مذکورہ امور کی ممانعت اس لیے کردی گئی کیونکہ بیت اللہ کی خدمت وحفاظت اب مسلمانوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ تشریح : جب ننگے ہوکر طواف کرنا منع ہوا تو ستر پوشی طواف میں ضرور واجب ہوگئی، اسی طرح نماز میں بطریق اولیٰ ستر پوشی واجب ہوگی۔ سورۃ توبہ کے نازل ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی آگاہی کے لیے پہلے سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ پھر آپ کو یہ خیال آیاکہ معاہدہ کو توڑنے کا حق دستورعرب کے مطابق اسی کو ہے، جس نے خود معاہدہ کیا ہے یا کوئی اس کے خاص گھروالوں سے ہونا چاہئیے۔ اس لیے آپ نے پیچھے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ فرمادیا۔ قریش مکہ کی بدعہدی کی آخری مثال صلح حدیبیہ تھی۔ طے ہوا تھا کہ ایک طرف مسلمان اور ان کے حلیف ہوں گے اور دوسری طرف قریش اور ان کے حلیف، مسلمانوں کے ساتھ قبیلہ خزاعہ شریک ہوا اور قریش کے ساتھ بنوبکر۔ صلح کی بنیادی شرط یہ تھی کہ دس برس تک دونوں فریق صلح وامن سے رہیں گے۔ مگرابھی دوسال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ بنوبکر نے خزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش نے ان کی مدد کی۔ بنوخزاعہ نے کعبہ میں اللہ کے نام پر امان مانگی، پھر بھی وہ بے دریغ قتل کئے گئے۔ صرف چالیس آدمی بچ کر مدینہ پہنچے اور سارا حال زار پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ اب معاہدہ کی رو سے آپ کے لیے ضروری ہوگیا کہ قریش کو ان کی بدعہدی کی سزادی جائے۔ چنانچہ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور بغیر کسی خون ریزی کے مکہ شریف فتح ہوگیا۔ جس کے بعد 9ہجری میں اس سورۃ شریفہ کی ابتدائی دس آیات نازل ہوئیں اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا امیرحج بناکر بھیجا۔ یہ حجۃ الوداع سے پہلے کا واقعہ ہے بعد میں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مکہ شریف بھیجاتاکہ وہ سورۃ توبہ کی ان آیات کا کھلے عام اعلان کردیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں ذرا سا خیال پیدا ہوا کہ کہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خفا تو نہیں ہوگئے جوبعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی اسی مقصد کے لیے بھیجنا ضروری سمجھا۔ اس پر آپ نے ان کی تشفی فرمائی اور بتلایا کہ دستور عرب کے تحت مجھ کو علی رضی اللہ عنہ کا بھیجنا ضروری ہوا، ورنہ آپ میرے یارغار ہیں۔ بلکہ حوض کوثر پر بھی آپ ہی کو رفاقت رہے گی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔