‌صحيح البخاري - حدیث 3673

کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا» صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ سَمِعْتُ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ تَابَعَهُ جَرِيرٌ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ وَمُحَاضِرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3673

کتاب: نبی کریمﷺ کے اصحاب کی فضیلت باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا۔۔۔ ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے بیان کیا ، کہا میں نے ذکوان سے سنا اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے اصحاب کو برا بھلامت کہو ۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر ۔ شعبہ کے ساتھ اس حدیث کو جریر ، عبداللہ بن داود ، ابومعاویہ اور محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیاہے ۔
تشریح : اس سے عام طورپر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، یہ وہ بزرگان اسلام ہیں ، جن کو دیدار رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہوا ، اس لیے ان کی عند اللہ بڑی اہمیت ہے، جریر رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام مسلم نے اور محاضر کی روایت کو ابوالفتح نے اپنے فوائد میں اور عبداللہ بن داود کی روایت کو مسدد نے اور ابومعاویہ کی روایت کو امام احمد نے وصل کیا ہے۔ خدمت اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مالی قربانیوں کو اس لیے فضیلت حاصل ہے کہ انہوں نے ایسے وقت میں خرچ کیا جب سخت ضرورت تھی، کافروں کا غلبہ تھا اور مسلمان محتاج تھے۔ مقصود مہاجرین اولین اور انصار کی فضیلت بیان کرنا ہے ، ان میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ لہذا باب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔ یہ حدیث آپ نے اس وقت فرمائی جب خالد بن ولید اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما میں کچھ تکرار ہوئی۔ خالد نے عبدالرحمن کو کچھ سخت کہا۔ آپ نے خالد رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے یہ فرمایا۔ بعض نے کہا کہ یہ خطاب ان لوگوں کی طرف ہے جو صحابہ کے بعد پیداہوں گے۔ ان کو موجود فرض کرکے ان کی طرف خطاب کیا۔ مگر یہ قول صحیح نہیں ہے کیوں کہ خالد رضی اللہ عنہ کی طرف خطاب کرکے آپ نے یہ حدیث فرمائی تھی اور خالد رضی اللہ عنہ خود صحابہ میں سے ہیں۔ اس سے عام طورپر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، یہ وہ بزرگان اسلام ہیں ، جن کو دیدار رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہوا ، اس لیے ان کی عند اللہ بڑی اہمیت ہے، جریر رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام مسلم نے اور محاضر کی روایت کو ابوالفتح نے اپنے فوائد میں اور عبداللہ بن داود کی روایت کو مسدد نے اور ابومعاویہ کی روایت کو امام احمد نے وصل کیا ہے۔ خدمت اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مالی قربانیوں کو اس لیے فضیلت حاصل ہے کہ انہوں نے ایسے وقت میں خرچ کیا جب سخت ضرورت تھی، کافروں کا غلبہ تھا اور مسلمان محتاج تھے۔ مقصود مہاجرین اولین اور انصار کی فضیلت بیان کرنا ہے ، ان میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ لہذا باب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔ یہ حدیث آپ نے اس وقت فرمائی جب خالد بن ولید اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما میں کچھ تکرار ہوئی۔ خالد نے عبدالرحمن کو کچھ سخت کہا۔ آپ نے خالد رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے یہ فرمایا۔ بعض نے کہا کہ یہ خطاب ان لوگوں کی طرف ہے جو صحابہ کے بعد پیداہوں گے۔ ان کو موجود فرض کرکے ان کی طرف خطاب کیا۔ مگر یہ قول صحیح نہیں ہے کیوں کہ خالد رضی اللہ عنہ کی طرف خطاب کرکے آپ نے یہ حدیث فرمائی تھی اور خالد رضی اللہ عنہ خود صحابہ میں سے ہیں۔