‌صحيح البخاري - حدیث 3670

کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا» صحيح ثُمَّ لَقَدْ بَصَّرَ أَبُو بَكْرٍ النَّاسَ الهُدَى، وَعَرَّفَهُمُ الحَقَّ الَّذِي عَلَيْهِمْ وَخَرَجُوا بِهِ، يَتْلُونَ {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ} [آل عمران: 144] إِلَى {الشَّاكِرِينَ} [آل عمران: 144]

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3670

کتاب: نبی کریمﷺ کے اصحاب کی فضیلت باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا۔۔۔ اور بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو حق اور ہدایت کی بات تھی وہ لوگوں کو سمجھادی اور ان کو بتلادیا جو ان پر لازم تھا ( یعنی اسلام پر قائم رہنا ) اور وہ یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے ” محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی رسول گزرچکے ہیں ۔ الشاکرین ، تک ۔
تشریح : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس عظیم خطبہ نے امت کے شیرازے کو منتشر ہونے سے بچالیا۔ انصار نے جو دوامیر مقرر کرنے کی تجویز پیش کی تھی وہ صحیح نہ تھی۔ کیونکہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رکھی جاسکتیں۔ روایت میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بددعا مذکور ہے۔ وہی دو امیر مقرر کرنے کی تجویز لے کر آئے تھے۔ خدانخواستہ اس پر عمل ہوتا تونتیجہ بہت ہی برا ہوتا ۔ کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ اس کے بعد شام کے ملک کو چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ اس حدیث سے نصب خلیفہ کا وجوب ثابت ہو ا کیونکہ صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتکفین پر بھی اس کو مقدم رکھا۔ صد افسوس کہ امت نے جلد ہی اس فر ض کو فراموش کردیا۔ پہلی خرابی یہ پیداہوئی کہ خلافت کی جگہ ملوکیت آگئی۔ پھر جب مسلمانوں نے قطار عالم میں قدم رکھا تو مختلف اقوام عالم سے ان کا سابقہ پڑا جن سے متاثر ہو کر وہ اس فریضہ ملت کو بھول گئے اور انتشار کا شکار ہوگئے۔ آج تو دور ہی دوسرا ہے اگر چہ اب بھی مسلمانوں کی کافی حکومتیں دنیا میں قائم ہیں مگر خلافت راشدہ کی جھلک سے اکثر محروم ہیں۔ اللہ پاک اس دور پُر فتن میں مسلمانوں کو باہمی اتفاق نصیب کرے کہ وہ متحدہ طورپر جمع ہوکر ملت اسلامیہ کی خدمت کرسکیں ۔ آمین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس عظیم خطبہ نے امت کے شیرازے کو منتشر ہونے سے بچالیا۔ انصار نے جو دوامیر مقرر کرنے کی تجویز پیش کی تھی وہ صحیح نہ تھی۔ کیونکہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رکھی جاسکتیں۔ روایت میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بددعا مذکور ہے۔ وہی دو امیر مقرر کرنے کی تجویز لے کر آئے تھے۔ خدانخواستہ اس پر عمل ہوتا تونتیجہ بہت ہی برا ہوتا ۔ کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ اس کے بعد شام کے ملک کو چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ اس حدیث سے نصب خلیفہ کا وجوب ثابت ہو ا کیونکہ صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتکفین پر بھی اس کو مقدم رکھا۔ صد افسوس کہ امت نے جلد ہی اس فر ض کو فراموش کردیا۔ پہلی خرابی یہ پیداہوئی کہ خلافت کی جگہ ملوکیت آگئی۔ پھر جب مسلمانوں نے قطار عالم میں قدم رکھا تو مختلف اقوام عالم سے ان کا سابقہ پڑا جن سے متاثر ہو کر وہ اس فریضہ ملت کو بھول گئے اور انتشار کا شکار ہوگئے۔ آج تو دور ہی دوسرا ہے اگر چہ اب بھی مسلمانوں کی کافی حکومتیں دنیا میں قائم ہیں مگر خلافت راشدہ کی جھلک سے اکثر محروم ہیں۔ اللہ پاک اس دور پُر فتن میں مسلمانوں کو باہمی اتفاق نصیب کرے کہ وہ متحدہ طورپر جمع ہوکر ملت اسلامیہ کی خدمت کرسکیں ۔ آمین