كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ» قَالَ عُمَيْرٌ: فَقَالَ مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ: قَالَ مُعَاذٌ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: هَذَا مَالِكٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا يَقُولُ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
باب
ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، کہاہم سے ولید نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے یزید بن جابر نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا اور انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ۔ آپ فرمارہے تھے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر قائم رہے گا ، انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے اور اسی طرح ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے ، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حالت پر ہیں گے ۔ عمیر نے بیان کیا کہ اس پر مالک بن یخامر نے کہا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ہمارے زمانے میں یہ لوگ شام میں ہیں ۔ امیر معاویہ نے کہا کہ دیکھویہ مالک بن یخامر یہاں موجود ہیں ، جو کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے معاذ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ یہ لوگ شام کے ملک میں ہیں ۔
تشریح :
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شام میں تھے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اہل شام اس حدیث سے مراد ہیں، مگر یہ کوئی خصوصیت نہیں ہے، مطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ میری امت کے سب لوگ یک دم گمراہ ہوجائیں ایسا نہ ہوگا بلکہ ایک گروہ تب بھی ضرور بالضرور حق پر قائم رہے گا اور یہ اہل حدیث کا گروہ ہے، امام احمد بن حنبل نے یہی فرمایا ہے اور بھی بہت سے علماءنے صراحت سے لکھا ہے کہ اس پیشین گوئی کے مصداق وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیل وقال اور آراءرجال سے ہٹ کر صرف ظاہر نصوص کتاب وسنت کو اپنا مدار عمل قرار دیا اور صحابہ تابعین اور تبع تابعین و محدثین وائمہ مجتہدین کے طرز عمل کو اپنایا، ظاہر ہے کہ مذکورہ بزرگان اسلام موجودہ تقلید جامد کے شکار نہ تھے نہ ان میں مسالک کے ناموں پر مختلف گروہ تھے جیسا کہ بعد میں پیدا ہوئے کہ کعبہ شریف تک کو چار مصلوں میں تقسیم کردیا گیا۔ شکر ہے اللہ پاک کا کہ جماعت اہل حدیث کی مساعی کے نتیجہ میں آج مسلمان پھر کتاب وسنت کی طرف آرہے ہیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شام میں تھے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اہل شام اس حدیث سے مراد ہیں، مگر یہ کوئی خصوصیت نہیں ہے، مطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ میری امت کے سب لوگ یک دم گمراہ ہوجائیں ایسا نہ ہوگا بلکہ ایک گروہ تب بھی ضرور بالضرور حق پر قائم رہے گا اور یہ اہل حدیث کا گروہ ہے، امام احمد بن حنبل نے یہی فرمایا ہے اور بھی بہت سے علماءنے صراحت سے لکھا ہے کہ اس پیشین گوئی کے مصداق وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیل وقال اور آراءرجال سے ہٹ کر صرف ظاہر نصوص کتاب وسنت کو اپنا مدار عمل قرار دیا اور صحابہ تابعین اور تبع تابعین و محدثین وائمہ مجتہدین کے طرز عمل کو اپنایا، ظاہر ہے کہ مذکورہ بزرگان اسلام موجودہ تقلید جامد کے شکار نہ تھے نہ ان میں مسالک کے ناموں پر مختلف گروہ تھے جیسا کہ بعد میں پیدا ہوئے کہ کعبہ شریف تک کو چار مصلوں میں تقسیم کردیا گیا۔ شکر ہے اللہ پاک کا کہ جماعت اہل حدیث کی مساعی کے نتیجہ میں آج مسلمان پھر کتاب وسنت کی طرف آرہے ہیں۔