كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ صحيح حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة،. حدثني بشر بن خالد، حدثنا محمد، عن شعبة، عن سليمان، سمعت أبا وائل، يحدث عن حذيفة، أن عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ قال أيكم يحفظ قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة فقال حذيفة أنا أحفظ كما قال. قال هات إنك لجريء. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنة الرجل في أهله وماله وجاره تكفرها الصلاة والصدقة والأمر بالمعروف والنهى عن المنكر . قال ليست هذه، ولكن التي تموج كموج البحر. قال يا أمير المؤمنين لا بأس عليك منها، إن بينك وبينها بابا مغلقا. قال يفتح الباب أو يكسر قال لا بل يكسر. قال ذاك أحرى أن لا يغلق. قلنا علم الباب قال نعم، كما أن دون غد الليلة، إني حدثته حديثا ليس بالأغاليط. فهبنا أن نسأله، وأمرنا مسروقا، فسأله فقال من الباب قال عمر.
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
باب: آنحضرت ﷺکےمعجزات یعنی نبوت کی نشانیوں کابیان
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے ، ( دوسری سند ) کہا مجھ سے بشر بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے ، ان سے شعبہ نے ، ان سے سلیمان نے ، انہوں نے ابووائل سے سنا ، وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا فتنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کس کو یاد ہے ؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے کہ مجھے زیادہ یاد ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر بیان کرو ( ماشاءاللہ ) تم تو بہت جری ہو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا : انسان کی ایک آزمائش ( فتنہ ) تو اس کے گھر مال اور پڑوس میں ہوتا ہے جس کا کفارہ ، نماز ، روزہ ، صدقہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیس نیکیاں بن جاتی ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا ، بلکہ میری مراد اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی طرح ( ٹھاٹھیں مارتا ) ہوگا ۔ انہوں نے کہا اس فتنہ کا آپ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان بند دروازہ ہے حضرت عمر نے پوچھا وہ دروازہ کھولاجائے گا یا توڑا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ توڑدیا جائے گا ۔ حضرت عمر نے اس پر فرمایاکہ پھر تو بند نہ ہوسکے گا ۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا عمر رضی اللہ عنہ اس دروازے کے متعلق جانتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح جانتے تھے جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو ہر شخص جانتا ہے ۔ میں نے ایسی حدیث بیان کی جو غلط نہیں تھی ۔ ہمیں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ( دروازہ کے متعلق ) پوچھتے ہوئے ڈر معلوم ہوا ۔ اس لیے ہم نے مسروق سے کہاتو انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود عمر رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔
تشریح :
یہ حدیث مع شرح اوپر گزر چکی ہے۔ امام بخاری اس باب میں اس کو اس لیے لائے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے کوئی فتنہ اور فساد مسلمانوں میں نہیں ہوا۔ ان کی وفات کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا تو آپ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ زرکشی نے کہا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ اگر اس دروازے کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ذات کہتے تو درست ہوتا ان کی شہادت کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔ ( بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ کی مظلومانہ شہادت بھی فتنہ گروں کے ہاتھوں ہوئی ) راقم کہتا ہے کہ یہ زرکشی کی خوش فہمی ہے۔ فتنوں کا دروازہ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیات میں کھل گیا تھا پھر وہ دروازہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک جلیل الشان صحابی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم راز تھے۔ انہوں نے جو امر قرار دیا ، زرکشی کو اس پر اعتراض کرنا زیبا نہیں تھا ( وحیدی ) اہل ومال کے فتنے سے مراد خداکی یاد سے غافل ہونا اور دل پر غفلت کا پردہ آنا ہے۔
یہ حدیث مع شرح اوپر گزر چکی ہے۔ امام بخاری اس باب میں اس کو اس لیے لائے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے کوئی فتنہ اور فساد مسلمانوں میں نہیں ہوا۔ ان کی وفات کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا تو آپ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ زرکشی نے کہا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ اگر اس دروازے کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ذات کہتے تو درست ہوتا ان کی شہادت کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔ ( بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ کی مظلومانہ شہادت بھی فتنہ گروں کے ہاتھوں ہوئی ) راقم کہتا ہے کہ یہ زرکشی کی خوش فہمی ہے۔ فتنوں کا دروازہ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیات میں کھل گیا تھا پھر وہ دروازہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک جلیل الشان صحابی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم راز تھے۔ انہوں نے جو امر قرار دیا ، زرکشی کو اس پر اعتراض کرنا زیبا نہیں تھا ( وحیدی ) اہل ومال کے فتنے سے مراد خداکی یاد سے غافل ہونا اور دل پر غفلت کا پردہ آنا ہے۔