كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي حَفْصُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ كَانَ الْمَسْجِدُ مَسْقُوفًا عَلَى جُذُوعٍ مِنْ نَخْلٍ فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ يَقُومُ إِلَى جِذْعٍ مِنْهَا فَلَمَّا صُنِعَ لَهُ الْمِنْبَرُ وَكَانَ عَلَيْهِ فَسَمِعْنَا لِذَلِكَ الْجِذْعِ صَوْتًا كَصَوْتِ الْعِشَارِ حَتَّى جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَسَكَنَتْ
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
باب: آنحضرت ﷺکےمعجزات یعنی نبوت کی نشانیوں کابیان
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا ، ان سے سلیمان بن بلال نے ، ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، انہیں حفص بن عبید اللہ بن انس بن مالک نے خبردی اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی ۔ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ کے لیے تشریف لاتے تو آپ ان میں سے ایک تنے کے پاس کھڑے ہوجاتے لیکن جب آپ کے لیے منبر بنادیا گیا تو آپ اس پر تشریف لائے ، پھر ہم نے اس تنے سے اس طرح کی رونے کی آواز سنی جیسی بوقت ولادت اونٹنی کی آواز ہوتی ہے ۔ آخر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قریب آکر اس پر ہاتھ رکھا تو وہ چپ ہوا ۔
تشریح :
صحابہ نے یہ آواز سنی، دوسری روایت میں ہے، آپ نے آکر اس کو گلے لگا لیا اور وہ لکڑی خاموش ہوگئی۔ آپ نے فرمایا: اگر میں ایسا نہ کرتا تو وہ قیامت تک روتی رہتی۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جب اس حدیث کو بیان کرتے تو کہتے مسلمانو! ایک لکڑی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے شوق میں روئی اور تم لکڑی کے برابر بھی آپ سے ملنے کا شوق نہیں رکھتے ۔ دارمی کی روایت میں ہے کہ آپ نے حکم دیا کہ ایک گڑھا کھودا گیا اور وہ لکڑی اس میں دبادی گئی۔ ابونعیم کی روایت میں ہے آپ نے صحابہ سے فرمایا تم کو اس لکڑی کے رونے پر تعجب نہیں آتا۔ وہ آئے، اس کا رونا سنا، خود بھی بہت روئے، مسلمانو! ایک لکڑی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت ہو اور ہم لوگ جو اشرف المخلوقات ہیں اپنے پیغمبر سے اتنی بھی الفت نہ رکھیں۔ رونے کا مقام ہے کہ آپ کی حدیث کو چھوڑ کر ابوحنیفہ اور شافعی کے قول کی طرف دوڑیں، آپ کی حدیث سے توہم کو تسلی نہ ہو اور قہستانی اور کیدانی جو نامعلوم کس باغ کی مولی تھے ان کے قول سے تشفی ہوجائے ۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ پھر اسلام کا دعویٰ کیوں کرتے ہو جب پیغمبر اسلام کی تم کو ذرا بھی محبت نہیں۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
صحابہ نے یہ آواز سنی، دوسری روایت میں ہے، آپ نے آکر اس کو گلے لگا لیا اور وہ لکڑی خاموش ہوگئی۔ آپ نے فرمایا: اگر میں ایسا نہ کرتا تو وہ قیامت تک روتی رہتی۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جب اس حدیث کو بیان کرتے تو کہتے مسلمانو! ایک لکڑی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے شوق میں روئی اور تم لکڑی کے برابر بھی آپ سے ملنے کا شوق نہیں رکھتے ۔ دارمی کی روایت میں ہے کہ آپ نے حکم دیا کہ ایک گڑھا کھودا گیا اور وہ لکڑی اس میں دبادی گئی۔ ابونعیم کی روایت میں ہے آپ نے صحابہ سے فرمایا تم کو اس لکڑی کے رونے پر تعجب نہیں آتا۔ وہ آئے، اس کا رونا سنا، خود بھی بہت روئے، مسلمانو! ایک لکڑی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت ہو اور ہم لوگ جو اشرف المخلوقات ہیں اپنے پیغمبر سے اتنی بھی الفت نہ رکھیں۔ رونے کا مقام ہے کہ آپ کی حدیث کو چھوڑ کر ابوحنیفہ اور شافعی کے قول کی طرف دوڑیں، آپ کی حدیث سے توہم کو تسلی نہ ہو اور قہستانی اور کیدانی جو نامعلوم کس باغ کی مولی تھے ان کے قول سے تشفی ہوجائے ۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ پھر اسلام کا دعویٰ کیوں کرتے ہو جب پیغمبر اسلام کی تم کو ذرا بھی محبت نہیں۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )