‌صحيح البخاري - حدیث 357

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ مُلْتَحِفًا بِهِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «مَنْ هَذِهِ» [ص:81]، فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ: «مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ»، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ، قَامَ فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُهُ، فُلاَنَ ابْنَ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ» قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ: وَذَاكَ ضُحًى

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 357

کتاب: نماز کے احکام و مسائل باب: ایک کپڑا بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک بن انس نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر سالم بن امیہ سے کہ ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام ابومرہ یزید نے بیان کیا کہ انھوں نے ام ہانی بنت ابی طالب سے یہ سنا۔ وہ فرماتی تھیں کہ میں فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے ہیں اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہ پردہ کئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے بتایا کہ ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپ نے فرمایا اچھی آئی ہو، ام ہانی۔ پھر جب آپ نہانے سے فارغ ہو گئے تو اٹھے اور آٹھ رکعت نماز پڑھی، ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر۔ جب آپ نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے ماں کے بیٹے ( حضرت علی بن ابی طالب ) کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک شخص کو ضرور قتل کرے گا۔ حالانکہ میں نے اسے پناہ دے رکھی ہے۔ یہ ( میرے خاوند ) ہبیرہ کا فلاں بیٹا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام ہانی جسے تم نے پناہ دے دی، ہم نے بھی اسے پناہ دی۔ ام ہانی نے کہا کہ یہ نماز چاشت تھی۔
تشریح : حضرت علی رضی اللہ عنہ ام ہانی کے سگے بھائی تھے۔ ایک باپ ایک ماں۔ ان کو ماں کا بیٹا اس لیے کہا کہ مادری بھائی بہن ایک دوسرے پر بہت مہربان ہوتے ہیں۔ گویا ام ہانی یہ ظاہر کررہی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے سگے بھائی ہونے کے باوجود مجھ پر مہربانی نہیں کرتے۔ ہبیرہ کا بیٹا جعدہ نامی تھا جو ابھی بہت چھوٹا تھا۔ اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ مارنے کا ارادہ کیوں کرتے۔ ابن ہشام نے کہا ام ہانی نے حارث بن ہشام اور زہیربن ابی امیہ یاعبداللہ بن ربیعہ کو پناہ دی تھی۔ یہ لوگ ہبیرہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ شاید فلاں بن ہبیرہ میں راوی کو بھول سے عم کا لفظ چھوٹ گیا ہے یعنی دراصل فلاں بن عم ہبیرہ ہے۔ ہبیرہ بن ابی وہب بن عمرو مخزومی ام ہانی بنت ابی طالب کے خاوند ہیں جن کی اولاد میں ایک بچے کا نام ہانی بھی ہے جن کی کنیت سے اس خاتون کو ام ہانی سے پکارا گیا۔ ہبیرہ حالت شرک ہی میں مرگئے۔ ان کا ایک بچہ جعدہ نامی بھی تھا جو ام ہانی ہی کے بطن سے ہے جن کا اوپر ذکر ہوا، فتح مکہ کے دن ام ہانی نے ان ہی کو پناہ دی تھی۔ ان کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پناہ کو قبول فرمایا، آپ اس وقت چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ بعض کے نزدیک یہ فتح مکہ پر شکریہ کی نماز تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ام ہانی کے سگے بھائی تھے۔ ایک باپ ایک ماں۔ ان کو ماں کا بیٹا اس لیے کہا کہ مادری بھائی بہن ایک دوسرے پر بہت مہربان ہوتے ہیں۔ گویا ام ہانی یہ ظاہر کررہی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے سگے بھائی ہونے کے باوجود مجھ پر مہربانی نہیں کرتے۔ ہبیرہ کا بیٹا جعدہ نامی تھا جو ابھی بہت چھوٹا تھا۔ اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ مارنے کا ارادہ کیوں کرتے۔ ابن ہشام نے کہا ام ہانی نے حارث بن ہشام اور زہیربن ابی امیہ یاعبداللہ بن ربیعہ کو پناہ دی تھی۔ یہ لوگ ہبیرہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ شاید فلاں بن ہبیرہ میں راوی کو بھول سے عم کا لفظ چھوٹ گیا ہے یعنی دراصل فلاں بن عم ہبیرہ ہے۔ ہبیرہ بن ابی وہب بن عمرو مخزومی ام ہانی بنت ابی طالب کے خاوند ہیں جن کی اولاد میں ایک بچے کا نام ہانی بھی ہے جن کی کنیت سے اس خاتون کو ام ہانی سے پکارا گیا۔ ہبیرہ حالت شرک ہی میں مرگئے۔ ان کا ایک بچہ جعدہ نامی بھی تھا جو ام ہانی ہی کے بطن سے ہے جن کا اوپر ذکر ہوا، فتح مکہ کے دن ام ہانی نے ان ہی کو پناہ دی تھی۔ ان کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پناہ کو قبول فرمایا، آپ اس وقت چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ بعض کے نزدیک یہ فتح مکہ پر شکریہ کی نماز تھی۔