‌صحيح البخاري - حدیث 3560

كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ بِهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3560

کتاب: فضیلتوں کے بیان میں باب: نبی کریم ﷺ کے حلیہ اوراخلاق ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبردی ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہاگیا تو آپ نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں آپ کو زیادہ آسانی معلوم ہوئی بشرطیکہ اس میںکوئی گناہ نہ ہو ۔ کیوں کہ اگر اس میں گناہ کا کوئی شائبہ بھی ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بد لہ نہیں لیا ۔ لیکن اگر اللہ کی حرمت کو کوئی توڑ تا تو آپ اس سے ضرور بدلہ لیتے تھے ۔
تشریح : عبداللہ بن حنظل یا عقبہ بن ابی معیط یا ابورافع یہودی یا کعب بن اشرف کو جو آپ نے قتل کروایا وہ بھی اپنی ذات کے لیے نہ تھا بلکہ ان لوگوں نے اللہ کے دین میں خلل ڈالنا، لوگوں کو بہکانا اور فتنہ وفساد بھڑکانا اپنا رات دن کا شغل بنا لیا تھا۔ اس لیے قیام امن کے واسطے ان فساد پسندوں کو ختم کرایا گیا۔ ورنہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر آپ اپنی ذات کے لیے بدلہ لیتے تو اس یہودن کو ضرور قتل کراتے جس نے دعوت دے کر بکری کے گوشت میں زہر ملا کے آپ کو قتل کرنا چاہا تھا، یا اس منافق کو قتل کراتے جس نے مال غنیمت کی تقسیم پر آپ کی دیانت پر شبہ کیا تھا مگر ان سب کو معاف کردیا گیا۔ جان سے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بے دردی سے قتل کرنے والا حبشی بن حرب جب آپ کے سامنے آیا توآپ کو سخت تکلیف ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ آپ نے اسے معافی دی بلکہ اس کا اسلام بھی قبول کیا اور فتح مکہ کے دن تو آپ نے جو کچھ کیا اس پر آج تک دنیا حیران ہے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عبداللہ بن حنظل یا عقبہ بن ابی معیط یا ابورافع یہودی یا کعب بن اشرف کو جو آپ نے قتل کروایا وہ بھی اپنی ذات کے لیے نہ تھا بلکہ ان لوگوں نے اللہ کے دین میں خلل ڈالنا، لوگوں کو بہکانا اور فتنہ وفساد بھڑکانا اپنا رات دن کا شغل بنا لیا تھا۔ اس لیے قیام امن کے واسطے ان فساد پسندوں کو ختم کرایا گیا۔ ورنہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر آپ اپنی ذات کے لیے بدلہ لیتے تو اس یہودن کو ضرور قتل کراتے جس نے دعوت دے کر بکری کے گوشت میں زہر ملا کے آپ کو قتل کرنا چاہا تھا، یا اس منافق کو قتل کراتے جس نے مال غنیمت کی تقسیم پر آپ کی دیانت پر شبہ کیا تھا مگر ان سب کو معاف کردیا گیا۔ جان سے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بے دردی سے قتل کرنے والا حبشی بن حرب جب آپ کے سامنے آیا توآپ کو سخت تکلیف ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ آپ نے اسے معافی دی بلکہ اس کا اسلام بھی قبول کیا اور فتح مکہ کے دن تو آپ نے جو کچھ کیا اس پر آج تک دنیا حیران ہے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )