كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ صَلَّى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَصْرَ ثُمَّ خَرَجَ يَمْشِي فَرَأَى الْحَسَنَ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَحَمَلَهُ عَلَى عَاتِقِهِ وَقَالَ بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ لَا شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
باب: نبی کریم ﷺ کے حلیہ اوراخلاق
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا ، ان سے عمر بن سعید بن ابی حسین نے بیان کیا ، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عقبہ بن حارث نے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ عصر کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے باہر نکلے تو دیکھا کہ حضرت حسن بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمایا : میرے باپ تم پر قربان ہوں تم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شباہت ہے ۔ علی کی نہیں ۔ یہ سن کر حضرت علی ہنس رہے تھے ( خوش ہورہے تھے ) ۔
تشریح :
حضرت حسن رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مشابہ تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ بہت مشابہ تھے۔ ان دونوں میں اختلاف نہیں ہے۔ وجوہ مشابہت مختلف ہوں گے بعض نے کہا کہ حضرت حسن نصف اعلیٰ بدن میں مشابہ تھے اور حضرت حسین نصف اسفل میں۔ غرض یہ کہ دونوں شاہزادے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تصویر تھے۔ اس حدیث سے رافضیوں کا بھی رد ہوا جو جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن اور مخالف خیال کرتے ہیں کیوں کہ یہ قصہ آپ کی وفات کے بعد کا ہے، کوئی بے وقوف بھی ایسا خیال نہیں کرسکتا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل و اولاد کے خیر خواہ اور جاں نثار بن کر رہے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مشابہ تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ بہت مشابہ تھے۔ ان دونوں میں اختلاف نہیں ہے۔ وجوہ مشابہت مختلف ہوں گے بعض نے کہا کہ حضرت حسن نصف اعلیٰ بدن میں مشابہ تھے اور حضرت حسین نصف اسفل میں۔ غرض یہ کہ دونوں شاہزادے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تصویر تھے۔ اس حدیث سے رافضیوں کا بھی رد ہوا جو جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن اور مخالف خیال کرتے ہیں کیوں کہ یہ قصہ آپ کی وفات کے بعد کا ہے، کوئی بے وقوف بھی ایسا خیال نہیں کرسکتا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل و اولاد کے خیر خواہ اور جاں نثار بن کر رہے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔