‌صحيح البخاري - حدیث 3522

كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ قِصَّةِ زَمْزَمَ صحيح حَدَّثَنَا زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَخْزَمَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ حَدَّثَنِي مُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الْقَصِيرُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ قَالَ قَالَ لَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِإِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قُلْنَا بَلَى قَالَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ كُنْتُ رَجُلًا مِنْ غِفَارٍ فَبَلَغَنَا أَنَّ رَجُلًا قَدْ خَرَجَ بِمَكَّةَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقُلْتُ لِأَخِي انْطَلِقْ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ كَلِّمْهُ وَأْتِنِي بِخَبَرِهِ فَانْطَلَقَ فَلَقِيَهُ ثُمَّ رَجَعَ فَقُلْتُ مَا عِنْدَكَ فَقَالَ وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَأْمُرُ بِالْخَيْرِ وَيَنْهَى عَنْ الشَّرِّ فَقُلْتُ لَهُ لَمْ تَشْفِنِي مِنْ الْخَبَرِ فَأَخَذْتُ جِرَابًا وَعَصًا ثُمَّ أَقْبَلْتُ إِلَى مَكَّةَ فَجَعَلْتُ لَا أَعْرِفُهُ وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْأَلَ عَنْهُ وَأَشْرَبُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ وَأَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ قَالَ فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ فَقَالَ كَأَنَّ الرَّجُلَ غَرِيبٌ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَانْطَلِقْ إِلَى الْمَنْزِلِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ لَا يَسْأَلُنِي عَنْ شَيْءٍ وَلَا أُخْبِرُهُ فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ لِأَسْأَلَ عَنْهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يُخْبِرُنِي عَنْهُ بِشَيْءٍ قَالَ فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ فَقَالَ أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ يَعْرِفُ مَنْزِلَهُ بَعْدُ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ انْطَلِقْ مَعِي قَالَ فَقَالَ مَا أَمْرُكَ وَمَا أَقْدَمَكَ هَذِهِ الْبَلْدَةَ قَالَ قُلْتُ لَهُ إِنْ كَتَمْتَ عَلَيَّ أَخْبَرْتُكَ قَالَ فَإِنِّي أَفْعَلُ قَالَ قُلْتُ لَهُ بَلَغَنَا أَنَّهُ قَدْ خَرَجَ هَا هُنَا رَجُلٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَرْسَلْتُ أَخِي لِيُكَلِّمَهُ فَرَجَعَ وَلَمْ يَشْفِنِي مِنْ الْخَبَرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَلْقَاهُ فَقَالَ لَهُ أَمَا إِنَّكَ قَدْ رَشَدْتَ هَذَا وَجْهِي إِلَيْهِ فَاتَّبِعْنِي ادْخُلْ حَيْثُ أَدْخُلُ فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ أَحَدًا أَخَافُهُ عَلَيْكَ قُمْتُ إِلَى الْحَائِطِ كَأَنِّي أُصْلِحُ نَعْلِي وَامْضِ أَنْتَ فَمَضَى وَمَضَيْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ وَدَخَلْتُ مَعَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُ اعْرِضْ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ فَعَرَضَهُ فَأَسْلَمْتُ مَكَانِي فَقَالَ لِي يَا أَبَا ذَرٍّ اكْتُمْ هَذَا الْأَمْرَ وَارْجِعْ إِلَى بَلَدِكَ فَإِذَا بَلَغَكَ ظُهُورُنَا فَأَقْبِلْ فَقُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ فَجَاءَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَقُرَيْشٌ فِيهِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ إِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَقَالُوا قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ فَقَامُوا فَضُرِبْتُ لِأَمُوتَ فَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيَّ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ وَيْلَكُمْ تَقْتُلُونَ رَجُلًا مِنْ غِفَارَ وَمَتْجَرُكُمْ وَمَمَرُّكُمْ عَلَى غِفَارَ فَأَقْلَعُوا عَنِّي فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحْتُ الْغَدَ رَجَعْتُ فَقُلْتُ مِثْلَ مَا قُلْتُ بِالْأَمْسِ فَقَالُوا قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ فَصُنِعَ بِي مِثْلَ مَا صُنِعَ بِالْأَمْسِ وَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيَّ وَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ بِالْأَمْسِ قَالَ فَكَانَ هَذَا أَوَّلَ إِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ رَحِمَهُ اللَّهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3522

کتاب: فضیلتوں کے بیان میں باب: زمزم کا واقعہ ہم سے زید نے جو اخزم کے بیٹے ہیں ، یبان کیا ، کہا ہم سے ابوقتیبہ سلم بن قتیبہ نے بیان کیا ، ان سے مثنیٰ بن سعید قصیر نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابوجمرہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کیا میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ تمہیں سناو¿ں ؟ ہم نے عرض کیا ضرور سنائےے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے بتلایا ۔ میرا تعلق قبیلہ غفار سے تھا ۔ ہمارے یہاں یہ خبر پہنچی تھی کہ مکّہ میں ایک شخص پیدا ہوئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں ( پہلے تو ) میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اس شخص کے پاس مکہ جا ، اس سے گفتگو کر اور پھر اس کے سارے حالات آکر مجھے بتا ۔ چنانچہ میرے بھائی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور واپس آگئے ۔ میں نے پوچھا کہ کیاخبرلائے ؟ انہوں نے کہا ، اللہ کی قسم ! میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اچھے کاموں کے لیے کہتا ہے اور برے کاموں سے منع کرتا ہے ۔ میں نے کہا کہ تمہاری باتوں سے تو میری تشفی نہیں ہوئی ۔ اب میں نے توشے کا تھیلا اور چھڑی اٹھائی اور مکہ آگیا ۔ وہاں میں کسی کو پہچانتا نہیں تھا اور آپ کے متعلق کسی سے پوچھتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا ۔ میں ( صرف ) زمزم کا پانی پی لیا کرتاتھا ، اور مسجد حرام میں ٹھہرا ہوا تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور بولے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس شہر میں مسافر ہیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا : جی ہاں ۔ بیان کیا کہ تو پھر میرے گھر چلو ۔ پھر وہ مجھے اپنے گھر ساتھ لے گئے ۔ بیان کیا کہ میں آپ کے ساتھ ساتھ گیا ۔ نہ انہوں نے کوئی بات پوچھی اور نہ میں نے کچھ کہا ۔ صبح ہوئی تو میں پھر مسجد حرام میں آگیا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی سے پوچھوں لیکن آپ کے بارے میں کوئی بتانے والا نہیں تھا ۔ بیان کیا کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اوربولے کہ کیا ابھی تک آپ اپنے ٹھکانے کو نہیں پاسکے ہیں ؟ بیان کیا ، میں نے کہا کہ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اچھا پھر میرے ساتھ آئیے ، انہوں نے بیان کیا کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا ۔ آپ کا مطلب کیا ہے ۔ آپ اس شہر میں کیوں آئے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا : آپ اگرظاہر نہ کریں تو میںآپ کو اپنے معاملے کے بارے میں بتاو¿ں ۔ انہوں نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا ۔ تب میں نے ان سے کہا ۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہاں کوئی شخص پیدا ہوئے ہیں جونبوت کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ میں نے پہلے اپنے بھائی کو ان سے بات کرنے کے لیے بھیجاتھا ۔ لیکن جب وہ واپس ہوئے تو انہوں نے مجھے کوئی تشفی بخش اطلاعات نہیں دیں ۔ اس لیے میں اس ارادہ سے آیاہوں کہ ان سے خود ملاقات کروں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ نے اچھا راستہ پایا کہ مجھ سے مل گئے ۔ میں انہیں کے پاس جارہاہوں ۔ آپ میرے پیچھے پیچھے چلیں ۔ جہاں میں داخل ہوں آپ بھی داخل ہوجائیں ۔ اگر میں کسی ایسے آدمی کو دیکھوں گا جس سے آپ کے بارے میں مجھے خطرہ ہوگا تو میں کسی دیوار کے پاس کھڑا ہوجاو¿ں گا ، گویا کہ میں اپنا جوتا ٹھیک کررہاہوں ۔ اس وقت آپ آگے بڑھ جائیں چنانچہ وہ چلے اور میں بھی ان کے پیچھے ہولیا اور آخر میں وہ ایک مکان کے اندر گئے اور میں بھی ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اندر داخل ہوگیا ۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اسلام کے اصول وارکان مجھے سمجھادیجئے ۔ آپ نے میرے سامنے ان کی وضاحت فرمائی اور میں مسلمان ہوگیا ۔ پھر آپ نے فرمایا : اے ابوذر ! اس معاملے کو ابھی پوشیدہ رکھنا اور اپنے شہر کو چلے جانا ۔ پھر جب تمہیں ہمارے غلبہ کا حال معلوم ہوجائے تب یہاں دوبارہ آنا ۔ میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میںتو ان سب کے سامنے اسلام کے کلمہ کا اعلان کروں گا ۔ چنانچہ وہ مسجد حرام میں آئے ۔ قریش کے لوگ وہاں موجود تھے اور کہا ، اے قریش کی جماعت ! ( سنو ) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قریشیوں نے کہا کہ اس بددین کی خبر لو ۔ چنانچہ وہ میری طرف لپکے اور مجھے اتنا مارا کہ میں مرنے کے قریب ہوگیا ۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ آگئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے چھپالیا اور قریشیوں کی طرف متوجہ ہوکر انہوںکہا ۔ ارے نادانو ! قبیلہ غفار کے آدمی کو قتل کرتے ہو ۔ غفار سے تو تمہاری تجارت بھی ہے اور تمہارے قافلے بھی اس طرف سے گزرتے ہیں ۔ اس پر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا ۔ پھر جب دوسری صبح ہوئی تو پھر میں مسجد حرام میں آیا اور جو کچھ میںنے کل پکارا تھا اسی کو پھر دہرایا ۔ قریشیوں نے پھر کہا : پکڑو اس بددین کو ۔ جو کچھ انہوں نے میرے ساتھ کل کیا تھا وہی آج بھی کیا ۔ اتفاق سے پھر عباس بن عبدالمطلب آگئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے انہوں نے چھپالیا اور جیسا ا نہوں نے قریشیوں سے کل کہاتھا ویسا ہی آج بھی کہا ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کی ابتدا اس طرح سے ہوئی تھی ۔
تشریح : قریش کے لوگ ہرسال تجارت اور سوداگری کے لیے ملک شام کو جایا کرتے تھے اور راستہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان غفار کی قوم پڑتی تھی۔ حضرت عباس نے ان کو ڈرایا کہ اگر اس کو مارڈالو گے تو ساری غفار کی قوم برہم ہوجائے گی اور ہماری سوداگری اور آمد ورفت میں خلل ہوجائے گا۔ قریش کے لوگ ہرسال تجارت اور سوداگری کے لیے ملک شام کو جایا کرتے تھے اور راستہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان غفار کی قوم پڑتی تھی۔ حضرت عباس نے ان کو ڈرایا کہ اگر اس کو مارڈالو گے تو ساری غفار کی قوم برہم ہوجائے گی اور ہماری سوداگری اور آمد ورفت میں خلل ہوجائے گا۔