‌صحيح البخاري - حدیث 347

كِتَابُ التَّيَمُّمِ بَابٌ: التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدِ المَاءَ شَهْرًا، أَمَا كَانَ يَتَيَمَّمُ وَيُصَلِّي، فَكَيْفَ تَصْنَعُونَ بِهَذِهِ الْآيَةِ فِي سُورَةِ المَائِدَةِ: {فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا} [النساء: 43] فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَوْ رُخِّصَ لَهُمْ فِي هَذَا لَأَوْشَكُوا إِذَا بَرَدَ عَلَيْهِمُ المَاءُ أَنْ يَتَيَمَّمُوا الصَّعِيدَ. قُلْتُ: وَإِنَّمَا كَرِهْتُمْ هَذَا لِذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَأَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدِ المَاءَ، فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَّةُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَصْنَعَ هَكَذَا، فَضَرَبَ بِكَفِّهِ ضَرْبَةً عَلَى الأَرْضِ، ثُمَّ نَفَضَهَا، ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا ظَهْرَ كَفِّهِ بِشِمَالِهِ أَوْ ظَهْرَ شِمَالِهِ بِكَفِّهِ، ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ» فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَفَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِقَوْلِ [ص:78] عَمَّارٍ؟ وَزَادَ يَعْلَى، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ: كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي أَنَا وَأَنْتَ، فَأَجْنَبْتُ فَتَمَعَّكْتُ بِالصَّعِيدِ، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاهُ، فَقَالَ: «إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ هَكَذَا. وَمَسَحَ وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ وَاحِدَةً»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 347

کتاب: تیمم کے احکام و مسائل باب: تیمم میں ایک ہی دفعہ مٹی پر ہاتھ مارنا ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہمیں ابومعاویہ نے خبر دی اعمش سے، انھوں نے شقیق سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے؟ شقیق کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے ( اور نماز موقوف رکھے ) ابوموسی رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر سورہ مائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا “ اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو۔ ” حضرت عبداللہ بن مسعود بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا۔ انھوں نے کہا ہاں۔ پھر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا آپ کو حضرت عمار کا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی، لیکن پانی نہ ملا۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا۔ عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انھوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی۔ اور یعلی ابن عبید نے اعمش کے واسطہ سے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور آپ کو بھیجا۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں مٹی میں لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا۔
تشریح : ابوداؤد کی روایت میں صاف مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کا طریقہ بتلاتے ہوئے پہلے بائیں ہتھیلی کو دائیں ہتھیلی اور پہنچوں پر مارا پھر دائیں کو بائیں پر مارا اس طرح دونوں پہنچوں پر مسح کرکے پھر منہ پر پھیر لیا۔ بس یہی تیمم ہے اور یہی راحج ہے۔ علمائے محققین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ دوبار کی روایتیں سب ضعیف ہیں۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ حدیث عمار رواہ الترمذی کے تحت فرماتے ہیں: والحدیث یدل علی ان التیمم ضربۃ واحدۃ للوجہ والکفین وقد ذہب الی ذلک عطاءومکحول والاوزاعی واحمدبن حنبل واسحاق والصادق والامامیۃ قال فی الفتح ونقلہ ابن المنذر عن جمہور العلماءواختارہ وہوقول عامۃ اہل الحدیث۔ ( نیل الاوطار ) یعنی یہ حدیث دلیل ہے کہ تیمم میں صرف ایک ہی مرتبہ ہاتھوں کو مٹی پر مارنا کافی ہے اور جمہور علماءوجملہ محدثین کا یہی مسلک ہے۔ ابوداؤد کی روایت میں صاف مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کا طریقہ بتلاتے ہوئے پہلے بائیں ہتھیلی کو دائیں ہتھیلی اور پہنچوں پر مارا پھر دائیں کو بائیں پر مارا اس طرح دونوں پہنچوں پر مسح کرکے پھر منہ پر پھیر لیا۔ بس یہی تیمم ہے اور یہی راحج ہے۔ علمائے محققین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ دوبار کی روایتیں سب ضعیف ہیں۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ حدیث عمار رواہ الترمذی کے تحت فرماتے ہیں: والحدیث یدل علی ان التیمم ضربۃ واحدۃ للوجہ والکفین وقد ذہب الی ذلک عطاءومکحول والاوزاعی واحمدبن حنبل واسحاق والصادق والامامیۃ قال فی الفتح ونقلہ ابن المنذر عن جمہور العلماءواختارہ وہوقول عامۃ اہل الحدیث۔ ( نیل الاوطار ) یعنی یہ حدیث دلیل ہے کہ تیمم میں صرف ایک ہی مرتبہ ہاتھوں کو مٹی پر مارنا کافی ہے اور جمہور علماءوجملہ محدثین کا یہی مسلک ہے۔