‌صحيح البخاري - حدیث 3468

كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَامَ حَجَّ عَلَى الْمِنْبَرِ فَتَنَاوَلَ قُصَّةً مِنْ شَعَرٍ وَكَانَتْ فِي يَدَيْ حَرَسِيٍّ فَقَالَ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذِهِ وَيَقُولُ إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَهَا نِسَاؤُهُمْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3468

کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں باب ہم سے عبداللہ مسلمہ نےبیان کیا،کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سےابن وہب نے ،ان سے حمید بن عبدالرحمن نےاور انہوں نےمعاویہ بن ابی سفیان نے سنا ایک سال جب وہ حج کےلیے گئے ہوئے تھے تومنبر نبوی پرکھڑے ہوکر انہوں نے پیشانی کےبالوں ایک کچھا لیا جوان کے چوکیدار کےےہاتھ میں تھا اورفرمایا اے مدینہ والو! تمہارے علماء کدھر گئےمیں نے نبی کریمﷺ سےسنا ہے۔آپ نےاس طرح (بال جوڑنےکی )ممانعت فرمائی تھی اورفرمایا تھاکہ بنی اسرائیل پربربادی اس وقت آئی جب (شریعت کےخلاف ) ان کی عورتوں نےاس طرح بال سنوارنے شروع کردئیے تھے۔
تشریح : تمہارے علماء کدھر گئے یعنی کیاتم کومنع کرنے والے علماءختم ہوگئے ہیں۔ معلوم ہواکہ منکرات پر لوگوں کومنع کرناعلماء کا فرض ہے۔دوسروں کےبال اپنے سرمیں جوڑنا مرادہے۔دوسری حدیث میں ایسی عورت پرلعنت آئی ہے ۔معاویہ کا یہ خطبہ 61ھ سےمتعلق ہے۔جب آپ اپنی خلافت میں آخری حج کرنے آئے تھے، اکثر علماء صحابہ انتقال فرماچکے تھے۔حضرت امیر نے جہال کےایسے افعال کودیکھ کر یہ تاسف ظاہر فرمایا ۔ نبی اسرائیل کی شریعت میں بھی یہ حرام تھامگر ان کی عورتوں نے اس گناہ کا ارتکاب کیا اور ایسی حرکتوں کی وجہ سے بنی اسرائیل تباہ ہوگئے۔ معلوم ہوکہ محرمات کےعمومی ارتکاب سےقومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ قریشی اوراموی ہیں۔ان کی والدہ کانام ہندبنت عتبہ ہے۔ حضرت معاویہ خود اوران کےوالد فتح مکہ کےدن مسلمان ہوئے ۔یہ مولفۃ القلوب میں داخل تھے ۔بعدمیں آنحضرت ﷺ کےمراسلات لکھنے کی خدمت ان کو سونپی گئی۔اپنے بھائی یزید کےبعد شام کے حاکم مقرر ہوئے۔ حضرت عمر کےزمانہ سے وفات تک حاکم ہی رہے ۔یہ کل مدت بیس سال ہے۔ حضرت عمر کےدور خلافت میں تقریبا 4 سال اورحضرت عثمان کی پوری مدت خلافت اورحضرت علی کی پوری مدت خلافت اورا ن کے بیٹے حضرت حسین کی مدت خلافت یہ کل بیس سال ہوئے ۔ا س کے بعد حضرت حسن بن علی ؓ نے 41ھ میں خلافت ان کی سپرد کردیا توحکومت مکمل طور پر ان کو حاصل ہوگئی اورمکمل بیس سال تک زمام سلطنت ان کے ہاتھ میں رہی ۔بمقام دمشق رجب سہ 60 ھ میں 84 سال کی عمر میں ان کاانتقال ہوگیا۔آخر عمر میں لقوہ کی بیماری ہوگئی تھی۔ اپنی زندگی کےآخر ی ایام میں فرمایا کرتے تھے کاش میں وادی ذی طویٰ میں قریش کاایک آدمی ہوتا اور یہ حکومت وغیرہ کچھ نہ جانتا۔ان کی زندگی میں بہت سےسیاسی انقلابات آتے جاتے رہے۔انتقال سےپہلے ہی اپنے بیٹے یزید کوزمام حکومت سونپ کرسکدوش ہوگئے تھے۔مگر یزید میں بعد میں ان کا کیسا جانشین ثابت ہوا یہ دنیائے اسلام جانتی ہے۔تفصیل کی ضرورت نہیں۔حضرت معاویہ کی والدہ ماجدہ حضرت ہندہ بنت عتبہ بڑی عاقلہ خاتون تھیں۔فتح مکہ کےدن دوسری عورتوں کےساتھ انہوں نے بھی آنحضرت ﷺ کی دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی تو آپ نے فرمایا کہ خدا کےساتھ کسی کوشریک نہ کرو اور نہ چوری کروگی توہندہ نےعرض کیاکہ میرے خاوند ابوسفیان ہاتھ روک کر خرچ کرتے ہیں جس سے تنگی لاحق ہوتی ہے توآپ نےفرمایا کہ تم اس قدرلے لو جوتمہارے اور تمہاری اولاد کےلیے حسب دستور کافی ہو۔آپ نے فرمایا کہ اورزنا نہ کرو گی،ہندہ نےعرض کیا کہ آیا کوئی شریف عورت زنا کارہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے بچوں کوقتل نہ کروگی توہندہ نے عرض کیا کہ آپ نے ہمارے سب بچوں کوقتل کرادیا۔ہم نے توچھوٹے چھوٹے بچوں کوپرورش کیا اوربڑے ہونے پر آپ نے ان کابدر میں قتل کرادیا۔ حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں وفات پائی ۔اسی روز حضرت ابوقحافہ ابوبکر کووالد ماجد کاانتقال ہوا۔رحمہم اللہ اجمعین۔ تمہارے علماء کدھر گئے یعنی کیاتم کومنع کرنے والے علماءختم ہوگئے ہیں۔ معلوم ہواکہ منکرات پر لوگوں کومنع کرناعلماء کا فرض ہے۔دوسروں کےبال اپنے سرمیں جوڑنا مرادہے۔دوسری حدیث میں ایسی عورت پرلعنت آئی ہے ۔معاویہ کا یہ خطبہ 61ھ سےمتعلق ہے۔جب آپ اپنی خلافت میں آخری حج کرنے آئے تھے، اکثر علماء صحابہ انتقال فرماچکے تھے۔حضرت امیر نے جہال کےایسے افعال کودیکھ کر یہ تاسف ظاہر فرمایا ۔ نبی اسرائیل کی شریعت میں بھی یہ حرام تھامگر ان کی عورتوں نے اس گناہ کا ارتکاب کیا اور ایسی حرکتوں کی وجہ سے بنی اسرائیل تباہ ہوگئے۔ معلوم ہوکہ محرمات کےعمومی ارتکاب سےقومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ قریشی اوراموی ہیں۔ان کی والدہ کانام ہندبنت عتبہ ہے۔ حضرت معاویہ خود اوران کےوالد فتح مکہ کےدن مسلمان ہوئے ۔یہ مولفۃ القلوب میں داخل تھے ۔بعدمیں آنحضرت ﷺ کےمراسلات لکھنے کی خدمت ان کو سونپی گئی۔اپنے بھائی یزید کےبعد شام کے حاکم مقرر ہوئے۔ حضرت عمر کےزمانہ سے وفات تک حاکم ہی رہے ۔یہ کل مدت بیس سال ہے۔ حضرت عمر کےدور خلافت میں تقریبا 4 سال اورحضرت عثمان کی پوری مدت خلافت اورحضرت علی کی پوری مدت خلافت اورا ن کے بیٹے حضرت حسین کی مدت خلافت یہ کل بیس سال ہوئے ۔ا س کے بعد حضرت حسن بن علی ؓ نے 41ھ میں خلافت ان کی سپرد کردیا توحکومت مکمل طور پر ان کو حاصل ہوگئی اورمکمل بیس سال تک زمام سلطنت ان کے ہاتھ میں رہی ۔بمقام دمشق رجب سہ 60 ھ میں 84 سال کی عمر میں ان کاانتقال ہوگیا۔آخر عمر میں لقوہ کی بیماری ہوگئی تھی۔ اپنی زندگی کےآخر ی ایام میں فرمایا کرتے تھے کاش میں وادی ذی طویٰ میں قریش کاایک آدمی ہوتا اور یہ حکومت وغیرہ کچھ نہ جانتا۔ان کی زندگی میں بہت سےسیاسی انقلابات آتے جاتے رہے۔انتقال سےپہلے ہی اپنے بیٹے یزید کوزمام حکومت سونپ کرسکدوش ہوگئے تھے۔مگر یزید میں بعد میں ان کا کیسا جانشین ثابت ہوا یہ دنیائے اسلام جانتی ہے۔تفصیل کی ضرورت نہیں۔حضرت معاویہ کی والدہ ماجدہ حضرت ہندہ بنت عتبہ بڑی عاقلہ خاتون تھیں۔فتح مکہ کےدن دوسری عورتوں کےساتھ انہوں نے بھی آنحضرت ﷺ کی دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی تو آپ نے فرمایا کہ خدا کےساتھ کسی کوشریک نہ کرو اور نہ چوری کروگی توہندہ نےعرض کیاکہ میرے خاوند ابوسفیان ہاتھ روک کر خرچ کرتے ہیں جس سے تنگی لاحق ہوتی ہے توآپ نےفرمایا کہ تم اس قدرلے لو جوتمہارے اور تمہاری اولاد کےلیے حسب دستور کافی ہو۔آپ نے فرمایا کہ اورزنا نہ کرو گی،ہندہ نےعرض کیا کہ آیا کوئی شریف عورت زنا کارہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے بچوں کوقتل نہ کروگی توہندہ نے عرض کیا کہ آپ نے ہمارے سب بچوں کوقتل کرادیا۔ہم نے توچھوٹے چھوٹے بچوں کوپرورش کیا اوربڑے ہونے پر آپ نے ان کابدر میں قتل کرادیا۔ حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں وفات پائی ۔اسی روز حضرت ابوقحافہ ابوبکر کووالد ماجد کاانتقال ہوا۔رحمہم اللہ اجمعین۔