كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابُ حَدِيثِ الغَارِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يَمْشُونَ إِذْ أَصَابَهُمْ مَطَرٌ فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فَانْطَبَقَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ إِنَّهُ وَاللَّهِ يَا هَؤُلَاءِ لَا يُنْجِيكُمْ إِلَّا الصِّدْقُ فَليَدْعُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بِمَا يَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ صَدَقَ فِيهِ فَقَالَ وَاحِدٌ مِنْهُمْ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَجِيرٌ عَمِلَ لِي عَلَى فَرَقٍ مِنْ أَرُزٍّ فَذَهَبَ وَتَرَكَهُ وَأَنِّي عَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الْفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ فَصَارَ مِنْ أَمْرِهِ أَنِّي اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَأَنَّهُ أَتَانِي يَطْلُبُ أَجْرَهُ فَقُلْتُ لَهُ اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ فَسُقْهَا فَقَالَ لِي إِنَّمَا لِي عِنْدَكَ فَرَقٌ مِنْ أَرُزٍّ فَقُلْتُ لَهُ اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ فَإِنَّهَا مِنْ ذَلِكَ الْفَرَقِ فَسَاقَهَا فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا فَانْسَاحَتْ عَنْهُمْ الصَّخْرَةُ فَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ فَكُنْتُ آتِيهِمَا كُلَّ لَيْلَةٍ بِلَبَنِ غَنَمٍ لِي فَأَبْطَأْتُ عَلَيْهِمَا لَيْلَةً فَجِئْتُ وَقَدْ رَقَدَا وَأَهْلِي وَعِيَالِي يَتَضَاغَوْنَ مِنْ الْجُوعِ فَكُنْتُ لَا أَسْقِيهِمْ حَتَّى يَشْرَبَ أَبَوَايَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا وَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَهُمَا فَيَسْتَكِنَّا لِشَرْبَتِهِمَا فَلَمْ أَزَلْ أَنْتَظِرُ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا فَانْسَاحَتْ عَنْهُمْ الصَّخْرَةُ حَتَّى نَظَرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي ابْنَةُ عَمٍّ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ وَأَنِّي رَاوَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا فَأَبَتْ إِلَّا أَنْ آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ فَطَلَبْتُهَا حَتَّى قَدَرْتُ فَأَتَيْتُهَا بِهَا فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهَا فَأَمْكَنَتْنِي مِنْ نَفْسِهَا فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا فَقَالَتْ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ فَقُمْتُ وَتَرَكْتُ الْمِائَةَ دِينَارٍ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا فَفَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَخَرَجُوا
کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
اصحاب کہف کے بیان
ہم سے اسماعیل بن خلیل نےبیان کیا،کہا ہم کوعلی بن مسہر نےخبردی ،انہیں عبیداللہ بن عمر نے ،انہیں نافع نے اورانہیں ابن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا پچھلے زمانے میں(بنی اسرائیل میں سے) تین آدمی کہیں راستے میں جارہےتھےکہ اچانک بارش نےانہیں آلیا ۔وہ تینوں پہاڑ کےایک کھوہ(غار) میں گھس گئے (جب وہ اندر چلے گئے ) توغار کامنہ بند ہوگیا۔اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سےاب توصرف سچائی ہی نجات دلائے گی۔بہتر یہ ہےکہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کرکے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہوکہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کےلیے کیا تھا۔چنانچہ ایک نےاس طرح دعا کی ، اے اللہ ! تجھ کوخوب معلوم ہےکہ میں نےایک مزدور رکھا تھاجس نےایک فرق (تین صاع) چاول کی مزدوری پرمیرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص (غصہ میں آکر ) چلا گیا اوراپنے چاول چھوڑ گیا۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کولیا اوراس کی کاشت کی ۔ اس سے اتنا کچھ ہوگیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خریدلیے ۔ اس کےبہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں، ان کو لے جا۔ اس نے کہا کہ میرا توصرف ایک فرق چاول تم پر ہوناچاہیے تھا۔ میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لےجاکیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے۔ آخروہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔پس اے اللہ ! اگر توجانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈرسے کی تھی توتو غار کامنہ کھول دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔پھر دوسرے نےاس طرح دعا کی ۔ اے اللہ ! تجھے خوب معلوم ہےکہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہوگئے تومیں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں بکریوں کادودھ لاکر پلایا کرتا تھا۔ایک دن اتفاق سےمیں دیر سے آیا تووہ سوچکے تھے۔ادھر میرے بیوی اوربچے بھوک سے بلبلارہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کودودھ نہ پلا لوں لو، بیوی بچوں کونہیں دیتا تھامجھے انہیں بیدار کرنابھی پسند نہیں تھا اورچھوڑنا بھی پسند نہ تھا(کیونکہ یہی ان کا شام کا کھنا تھااور اس کےنہ پینے سےوہ کمزور ہوجاتے ) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔پس اگر تیرے علم میں بھی میں نےیہ کام تیرے خوف کی وجہ سےکیا تھا توتوہماری مشکل دور کردے۔اس وقت وہ پتھر کچھ اورہٹ گیا او ر اب آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی، میری ایک چچا ذاد بہن تھی جومجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔میں نےایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی ، اس نے انکار کیامگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سواشرفی لا کر دے دوں ۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کےلیے کوشش کی۔ آخر وہ مجھے مل گئی تومیں اس کےپاس آیا او ر وہ رقم اس کےحوالے کردی۔ اس نے مجھے اپنے نفس پرقدرت دے دی۔ جب میں اس کےدونوں پاؤں کےدرمیان بیٹھ چکا تواس نےکہا کہ اللہ سےڈر اورمہر کوبغیر حق کےنہ توڑ ۔میں ( یہ سنتے ہیں) میں نےیہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا توتو ہماری مشکل آسان کردے ۔اللہ تعالیٰ نےان کی مشکل دور کردی اور وہ تینوں باہر نکل آئے ۔
تشریح :
اس حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر فرماتےہیں وَفِيهِ فَضْلُ الْإِخْلَاصِ فِي الْعَمَلِ وَفَضْلُ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ وَخِدْمَتِهِمَا وَإِيثَارِهِمَا عَلَى الْوَلَدِ وَالْأَهْلِ وَتَحَمُّلِ الْمَشَقَّةِ لِأَجْلِهِمَا وَقَدِ اسْتُشْكِلَ تَرْكُهُ أَوْلَادَهُ الصِّغَارَ يَبْكُونَ مِنَ الْجُوعِ طُولَ لَيْلَتِهِمَا مَعَ قُدْرَتِهِ عَلَى تَسْكِينِ جُوعِهِمْ فَقِيلَ كَانَ فِي شَرْعِهِمْ تَقْدِيمُ نَفَقَةِ الْأَصْلِ عَلَى غَيْرِهِمْ وَقِيلَ يَحْتَمِلُ أَنَّ بُكَاءَهُمْ لَيْسَ عَنِ الْجُوعِ وَقَدْ تَقَدَّمَ مَا يَرُدُّهُ وَقِيلَ لَعَلَّهُمْ كَانُوا يَطْلُبُونَ زِيَادَةً عَلَى سَدِّ الرَّمَقِ وَهَذَا أَوْلَى وَفِيهِ فَضْلُ الْعِفَّةِ وَالِانْكِفَافِ عَنِ الْحَرَامِ مَعَ الْقُدْرَةِ وَأَنَّ تَرْكَ الْمَعْصِيَةِ يَمْحُو مُقَدِّمَاتِ طَلَبِهَا وَأَنَّ التَّوْبَةَ تَجُبُّ مَا قَبْلَهَا وَفِيهِ جَوَازُ الْإِجَارَةِ بِالطَّعَامِ الْمَعْلُومِ بَيْنَ الْمُتَآجِرَيْنِ وَفَضْلُ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَإِثْبَاتُ الْكَرَامَةِ لِلصَّالِحِينَ( فتح الباري)
یعنی اس حدیث سےعمل میں اخلاص کی فضیلت ثابت ہوئی اورماں باپ کےساتھ نیک سلوک کی اوریہ کہ ماں باپ کی رضا جوئی کےلیے ہرممکن مشقت کوبرداشت کرنا اولاد کافرض ہے۔اس شخص نےاپنے بچوں کورونے ہی دیا اوران کودودھ نہیں پلایا ، اس کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔کہا گیا ہےکہ ان کی شریعت کاحکم ہی یہ تھاکہ خرچ ماں باپ کودوسروں پر مقدم رکھا جائے ۔ یہ بھی احتمال ہے کہ ان بچوں کودودھ تھوڑا ہی پلایا گیا اس لیے وہ روتے رہے ، اوراس حدیث سےپاکبازی کی بھی فضیلت ثابت ہوگئی اوریہ بھی معلوم ہوا کہ توبہ کرنے سے پہلی غلطیاں بھی معاف ہوجاتی ہیں اور اس سے یہ بھی جواز نکلا کہ مزدور کوطعام کی اجرت پربھی مزدور رکھاجاسکتا ہےاورامانت کی ادائیگی کی بھی فضیلت ثابت ہوئی او رصالحین کی کرامتوں کا بھی اثبات ہوا کہ اللہ پاک نےان صالح بندوں کی دعاؤں کےنتیجہ میں اس پتھر کوچٹان کےمنہ سےہٹا دیااور یہ لوگ وہاں سے نجات پاگئے ۔رحمہم اللہ اجمعین ۔نیز حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے واقعہ اصحاب کہف کےبعد حدیث غاز کا ذکر فرمایا جس میں اشارہ ہےکہ آیت قرآنی ( ام حسبت ان اصحٰب الکہف والرقیم ) (الکہف : 9) رقیم سےیہی غار والے مراد ہیں جیسا کہ طبرانی اور بزار نےسندحسن کےساتھ نعمان بن بشیر ؓ سےروایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ نےسنا۔رقیم کاذکر فرماتےہوئے آپ نےان تینوں شخصوں کاذکر فرمانا جو ایک غا رمیں پناہ گزیں ہوگئے تھےاور جن پرپتھر کی چٹان گرگئی تھی اوراس غار کامنہ کردیا تھا۔ تینوں میں مزدوری پرزراعت کاکام کرانے والے کا ذکر ہے۔امام احمد کی روایت میں اس کاقصہ یوں مذکورہےکہ میں نے کئی مزدور ا س کی مزدوری ٹھہرا کر کام پرلگائے۔ایک شخص دوپہر کوآیا میں نے اس کوآدھی مزدوری پر رکھا لیکن اس نے اتنا کام کیا جتنا اوروں نےسارے دن میں کیا تھا میں نے کہا کہہ میں اس کوبھی سارے دن کی مزدوری دوں گا۔ اس پر پہلے مزدورں میں سے ایک شخص غصے میں ہوا۔ میں نے کہا بھائی تجھے کیا مطلب ہے۔ تواپنی مزدوری پوری لےلے۔ اس نے غصے میں اپنی مزدوری بھی نہ لی اور چل دیا۔پھر آگے وہ ہوا جو روایت میں مذکور ہے۔قسطلانی ﷺنے کہا کہ ان تینوں میں افضل تیسرا شخص تھا۔ امام غزالی نےکہا شہوت آدمی پربہت غلبہ کرتی ہےاو رجوشخص سب سامان ہوتےہوئے محض خوف خدا سےبدکار ی سے بازرہ گیا اس کادرجہ صدیقین میں ہوتا ہے ۔اللہ پاک نےحضرت یوسف کوصدیق اسی لیے فرمایا کہ انہوں نے زلیخا کےاصرار پربھی براکام کرنامنظور نہیں کیا اوردنیا کی سخت تکلیف برداشت کی۔ایسا شخص بموجب نص قرآنی جنتی ہےجیسا کہ ارشاد ہے۔(وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى) الخ (المائده 35) جوشخص اپنے رب کےسامنے کھڑا ہونے سےڈر گیا اور اپنے نفس کوخواہشات حرام سےر وک لیا توجنت اس کا ٹھکانا ہے۔ جعلنا اللہ منہم آمین-
اس حدیث سےیہ بھی معلوم ہو ا کہ وسیلہ کےلیے اعمال صالحہ کوپیش کرناجائز طریقہ ہےاوردعاؤں میں بطور وسیلہ وفات شدہ بزرگوں کانام لینا یہ درست نہیں ہے۔ اگر درست ہوتاتویہ غار والے اپنے انبیاء اولیاء کے ناموں سےدعا کرتےمگر انہوں نے ایسا نہیں کیابلکہ اعمال صالحہ کوہی وسیلہ میں پیش کیا۔ اس واقعہ سےنصیحت حاصل کرتے ہوئے ان لوگوں کوجو اپنی دعاؤں میں اپنے ولیوں ، پیروں اوربزرگوں کاوسیلہ ڈھونڈتے ہیں غو رکرناچاہیے وہ ایسا عمل کررہےہیں جس کا کوئی ثبوت کتاب وسنت اور بزرگان اسلام سےنہیں ہے۔آیت شریفہ( یایھاالذین امنوا اتقوااللہ وابتغوا لیہ الوسیلۃ ) الخ (المائدہ : 35) میں بھی وسیلہ سےاعمال صالحہ ہی مراد ہیں۔
اس حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر فرماتےہیں وَفِيهِ فَضْلُ الْإِخْلَاصِ فِي الْعَمَلِ وَفَضْلُ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ وَخِدْمَتِهِمَا وَإِيثَارِهِمَا عَلَى الْوَلَدِ وَالْأَهْلِ وَتَحَمُّلِ الْمَشَقَّةِ لِأَجْلِهِمَا وَقَدِ اسْتُشْكِلَ تَرْكُهُ أَوْلَادَهُ الصِّغَارَ يَبْكُونَ مِنَ الْجُوعِ طُولَ لَيْلَتِهِمَا مَعَ قُدْرَتِهِ عَلَى تَسْكِينِ جُوعِهِمْ فَقِيلَ كَانَ فِي شَرْعِهِمْ تَقْدِيمُ نَفَقَةِ الْأَصْلِ عَلَى غَيْرِهِمْ وَقِيلَ يَحْتَمِلُ أَنَّ بُكَاءَهُمْ لَيْسَ عَنِ الْجُوعِ وَقَدْ تَقَدَّمَ مَا يَرُدُّهُ وَقِيلَ لَعَلَّهُمْ كَانُوا يَطْلُبُونَ زِيَادَةً عَلَى سَدِّ الرَّمَقِ وَهَذَا أَوْلَى وَفِيهِ فَضْلُ الْعِفَّةِ وَالِانْكِفَافِ عَنِ الْحَرَامِ مَعَ الْقُدْرَةِ وَأَنَّ تَرْكَ الْمَعْصِيَةِ يَمْحُو مُقَدِّمَاتِ طَلَبِهَا وَأَنَّ التَّوْبَةَ تَجُبُّ مَا قَبْلَهَا وَفِيهِ جَوَازُ الْإِجَارَةِ بِالطَّعَامِ الْمَعْلُومِ بَيْنَ الْمُتَآجِرَيْنِ وَفَضْلُ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَإِثْبَاتُ الْكَرَامَةِ لِلصَّالِحِينَ( فتح الباري)
یعنی اس حدیث سےعمل میں اخلاص کی فضیلت ثابت ہوئی اورماں باپ کےساتھ نیک سلوک کی اوریہ کہ ماں باپ کی رضا جوئی کےلیے ہرممکن مشقت کوبرداشت کرنا اولاد کافرض ہے۔اس شخص نےاپنے بچوں کورونے ہی دیا اوران کودودھ نہیں پلایا ، اس کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔کہا گیا ہےکہ ان کی شریعت کاحکم ہی یہ تھاکہ خرچ ماں باپ کودوسروں پر مقدم رکھا جائے ۔ یہ بھی احتمال ہے کہ ان بچوں کودودھ تھوڑا ہی پلایا گیا اس لیے وہ روتے رہے ، اوراس حدیث سےپاکبازی کی بھی فضیلت ثابت ہوگئی اوریہ بھی معلوم ہوا کہ توبہ کرنے سے پہلی غلطیاں بھی معاف ہوجاتی ہیں اور اس سے یہ بھی جواز نکلا کہ مزدور کوطعام کی اجرت پربھی مزدور رکھاجاسکتا ہےاورامانت کی ادائیگی کی بھی فضیلت ثابت ہوئی او رصالحین کی کرامتوں کا بھی اثبات ہوا کہ اللہ پاک نےان صالح بندوں کی دعاؤں کےنتیجہ میں اس پتھر کوچٹان کےمنہ سےہٹا دیااور یہ لوگ وہاں سے نجات پاگئے ۔رحمہم اللہ اجمعین ۔نیز حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے واقعہ اصحاب کہف کےبعد حدیث غاز کا ذکر فرمایا جس میں اشارہ ہےکہ آیت قرآنی ( ام حسبت ان اصحٰب الکہف والرقیم ) (الکہف : 9) رقیم سےیہی غار والے مراد ہیں جیسا کہ طبرانی اور بزار نےسندحسن کےساتھ نعمان بن بشیر ؓ سےروایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ نےسنا۔رقیم کاذکر فرماتےہوئے آپ نےان تینوں شخصوں کاذکر فرمانا جو ایک غا رمیں پناہ گزیں ہوگئے تھےاور جن پرپتھر کی چٹان گرگئی تھی اوراس غار کامنہ کردیا تھا۔ تینوں میں مزدوری پرزراعت کاکام کرانے والے کا ذکر ہے۔امام احمد کی روایت میں اس کاقصہ یوں مذکورہےکہ میں نے کئی مزدور ا س کی مزدوری ٹھہرا کر کام پرلگائے۔ایک شخص دوپہر کوآیا میں نے اس کوآدھی مزدوری پر رکھا لیکن اس نے اتنا کام کیا جتنا اوروں نےسارے دن میں کیا تھا میں نے کہا کہہ میں اس کوبھی سارے دن کی مزدوری دوں گا۔ اس پر پہلے مزدورں میں سے ایک شخص غصے میں ہوا۔ میں نے کہا بھائی تجھے کیا مطلب ہے۔ تواپنی مزدوری پوری لےلے۔ اس نے غصے میں اپنی مزدوری بھی نہ لی اور چل دیا۔پھر آگے وہ ہوا جو روایت میں مذکور ہے۔قسطلانی ﷺنے کہا کہ ان تینوں میں افضل تیسرا شخص تھا۔ امام غزالی نےکہا شہوت آدمی پربہت غلبہ کرتی ہےاو رجوشخص سب سامان ہوتےہوئے محض خوف خدا سےبدکار ی سے بازرہ گیا اس کادرجہ صدیقین میں ہوتا ہے ۔اللہ پاک نےحضرت یوسف کوصدیق اسی لیے فرمایا کہ انہوں نے زلیخا کےاصرار پربھی براکام کرنامنظور نہیں کیا اوردنیا کی سخت تکلیف برداشت کی۔ایسا شخص بموجب نص قرآنی جنتی ہےجیسا کہ ارشاد ہے۔(وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى) الخ (المائده 35) جوشخص اپنے رب کےسامنے کھڑا ہونے سےڈر گیا اور اپنے نفس کوخواہشات حرام سےر وک لیا توجنت اس کا ٹھکانا ہے۔ جعلنا اللہ منہم آمین-
اس حدیث سےیہ بھی معلوم ہو ا کہ وسیلہ کےلیے اعمال صالحہ کوپیش کرناجائز طریقہ ہےاوردعاؤں میں بطور وسیلہ وفات شدہ بزرگوں کانام لینا یہ درست نہیں ہے۔ اگر درست ہوتاتویہ غار والے اپنے انبیاء اولیاء کے ناموں سےدعا کرتےمگر انہوں نے ایسا نہیں کیابلکہ اعمال صالحہ کوہی وسیلہ میں پیش کیا۔ اس واقعہ سےنصیحت حاصل کرتے ہوئے ان لوگوں کوجو اپنی دعاؤں میں اپنے ولیوں ، پیروں اوربزرگوں کاوسیلہ ڈھونڈتے ہیں غو رکرناچاہیے وہ ایسا عمل کررہےہیں جس کا کوئی ثبوت کتاب وسنت اور بزرگان اسلام سےنہیں ہے۔آیت شریفہ( یایھاالذین امنوا اتقوااللہ وابتغوا لیہ الوسیلۃ ) الخ (المائدہ : 35) میں بھی وسیلہ سےاعمال صالحہ ہی مراد ہیں۔