كِتَابُ التَّيَمُّمِ بَابٌ: إِذَا خَافَ الجُنُبُ عَلَى نَفْسِهِ المَرَضَ أَوِ المَوْتَ، أَوْ خَافَ العَطَشَ، تَيَمَّمَ صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: أَرَأَيْتَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِذَا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدْ مَاءً، كَيْفَ يَصْنَعُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لاَ يُصَلِّي حَتَّى يَجِدَ المَاءَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِقَوْلِ عَمَّارٍ حِينَ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَانَ يَكْفِيكَ» قَالَ: أَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَدَعْنَا مِنْ قَوْلِ عَمَّارٍ كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَذِهِ الآيَةِ؟ فَمَا دَرَى عَبْدُ اللَّهِ مَا يَقُولُ، فَقَالَ: إِنَّا لَوْ رَخَّصْنَا لَهُمْ فِي هَذَا لَأَوْشَكَ إِذَا بَرَدَ عَلَى أَحَدِهِمُ المَاءُ أَنْ يَدَعَهُ وَيَتَيَمَّمَ فَقُلْتُ لِشَقِيقٍ فَإِنَّمَا كَرِهَ عَبْدُ اللَّهِ لِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»
کتاب: تیمم کے احکام و مسائل
باب: جب جنبی کو غسل سے خطرہ ہو
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہ کہا ہم سے میرے والد حفص بن غیاث نے، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا، انھوں نے کہا کہ میں عبداللہ ( بن مسعود ) اور ابوموسیٰ اشعری کی خدمت میں تھا، ابوموسیٰ نے پوچھا کہ ابوعبدالرحمن! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ اسے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ جب تک اسے پانی نہ مل جائے۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ پھر عمار کی اس روایت کا کیا ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا کہ تمہیں صرف ( ہاتھ اور منہ کا تیمم ) کافی تھا۔ ابن مسعود نے فرمایا کہ تم عمر کو نہیں دیکھتے کہ وہ عمار کی اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر ابوموسیٰ نے کہا کہ اچھا عمار کی بات کو چھوڑو لیکن اس آیت کا کیا جواب دو گے ( جس میں جنابت میں تیمم کرنے کی واضح اجازت موجود ہے ) عبداللہ بن مسعود اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ صرف یہ کہا کہ اگر ہم اس کی بھی لوگوں کو اجازت دے دیں تو ان کا حال یہ ہو جائے گا کہ اگر کسی کو پانی ٹھنڈا معلوم ہوا تو اسے چھوڑ دیا کرے گا۔ اور تیمم کر لیا کرے گا۔ ( اعمش کہتے ہیں کہ ) میں نے شقیق سے کہا کہ گویا عبداللہ نے اس وجہ سے یہ صورت ناپسند کی تھی۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔
تشریح :
قرآنی آیت اولٰمستم النساء ( المائدۃ: 6 ) سے صاف طور پر جنبی کے لیے تیمم کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ یہاں لمس سے جماع مراد ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ آیت سن کر کوئی جواب نہ دے سکے۔ ہا ںایک مصلحت کا ذکر فرمایا۔
مسندابن ابی شیبہ میں ہے کہ بعدمیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس خیال سے رجوع فرمالیاتھا اور امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے قول سے رجوع فرمالیاتھا۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس پر تمام امت کا اجماع ہے کہ جنبی اور حائضہ اور نفاس والی سب کے لیے تیمم درست ہے جب وہ پانی نہ پائیں یا بیمارہوں کہ پانی کے استعمال سے بیماری بڑھنے کا خطرہ ہو یا وہ حالات سفر میں ہوں اور پانی نہ پائیں توتیمم کریں۔ حضر ت عمررضی اللہ عنہ کو یہ عمار رضی اللہ عنہ والا واقعہ یاد نہیں رہاتھا۔ حالانکہ وہ سفرمیں عماررضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ مگر ان کو شک رہا۔ مگرعمار کا بیان درست تھا اس لیے ان کی روایت پر سارے علماءنے فتویٰ دیاکہ جنبی کے لیے تیمم جائز ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے خیالوں کو چھوڑدیاگیا۔ جب صحیح حدیث کے خلاف ایسے جلیل القدر صحابہ کرام کا قول چھوڑا جا سکتا ہے توامام یا مجتہد کا قول خلاف حدیث کیوں کر قابل تسلیم ہوگا۔ اسی لیے ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرمادیاکہ اذا صح الحدیث فہومذہبی صحیح حدیث ہی میرا مذہب ہے۔ پس میرا جو قول صحیح حدیث کے خلاف پاؤ اسے چھوڑدینا اور حدیث صحیح پر عمل کرنا۔ رحمہ اللہ تعالیٰ آمین۔
قرآنی آیت اولٰمستم النساء ( المائدۃ: 6 ) سے صاف طور پر جنبی کے لیے تیمم کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ یہاں لمس سے جماع مراد ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ آیت سن کر کوئی جواب نہ دے سکے۔ ہا ںایک مصلحت کا ذکر فرمایا۔
مسندابن ابی شیبہ میں ہے کہ بعدمیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس خیال سے رجوع فرمالیاتھا اور امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے قول سے رجوع فرمالیاتھا۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس پر تمام امت کا اجماع ہے کہ جنبی اور حائضہ اور نفاس والی سب کے لیے تیمم درست ہے جب وہ پانی نہ پائیں یا بیمارہوں کہ پانی کے استعمال سے بیماری بڑھنے کا خطرہ ہو یا وہ حالات سفر میں ہوں اور پانی نہ پائیں توتیمم کریں۔ حضر ت عمررضی اللہ عنہ کو یہ عمار رضی اللہ عنہ والا واقعہ یاد نہیں رہاتھا۔ حالانکہ وہ سفرمیں عماررضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ مگر ان کو شک رہا۔ مگرعمار کا بیان درست تھا اس لیے ان کی روایت پر سارے علماءنے فتویٰ دیاکہ جنبی کے لیے تیمم جائز ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے خیالوں کو چھوڑدیاگیا۔ جب صحیح حدیث کے خلاف ایسے جلیل القدر صحابہ کرام کا قول چھوڑا جا سکتا ہے توامام یا مجتہد کا قول خلاف حدیث کیوں کر قابل تسلیم ہوگا۔ اسی لیے ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرمادیاکہ اذا صح الحدیث فہومذہبی صحیح حدیث ہی میرا مذہب ہے۔ پس میرا جو قول صحیح حدیث کے خلاف پاؤ اسے چھوڑدینا اور حدیث صحیح پر عمل کرنا۔ رحمہ اللہ تعالیٰ آمین۔