‌صحيح البخاري - حدیث 3441

كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ {وَاذْكُرْ فِي الكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا} [مريم: 16] صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ قَالَ سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَا وَاللَّهِ مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعِيسَى أَحْمَرُ وَلَكِنْ قَالَ بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ أَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الشَّعَرِ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ يَنْطِفُ رَأْسُهُ مَاءً أَوْ يُهَرَاقُ رَأْسُهُ مَاءً فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا ابْنُ مَرْيَمَ فَذَهَبْتُ أَلْتَفِتُ فَإِذَا رَجُلٌ أَحْمَرُ جَسِيمٌ جَعْدُ الرَّأْسِ أَعْوَرُ عَيْنِهِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا هَذَا الدَّجَّالُ وَأَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا ابْنُ قَطَنٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ هَلَكَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3441

کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں باب : سورۃ مریم میں اللہ تعا لیٰ نے فرمایا ( اس ) کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ۔ ہم سے احمدبن محمدمکی نے بیان کیا ،کہا ہم میں نےابراہیم بن سعد سے سنا،کہا کہ مجھ سے زہری نےبیان کیا،ان سے سالم نے اوران سے ان کےوالد نےبیان کیا کہ ہرگز نہیں۔خدا کی قسم نبی کریم ﷺ نےحضرت عیسیٰ کےبارےمیں یہ نہیں فرمایا تھا کہ وہ سرخ تھے بلکہ آپ نےیہ فرمایا تھا کہ میں نے خواب میں ایک مرتبہ بیت اللہ کاطواف کرتےہوئے اپنے کودیکھا ،ا س وقت مجھے ایک صاحب نظر آئے جوگندمی رنگ لٹکے ہوئے بال والے تھے، دو آدمیوں کےدرمیان ان کا سہارا لئے ہوئے اورسر سےپانی صاف کررہے تھے۔میں نےپوچھا کہ آپ کون ہیں؟ توفرشتوں نےجواب دیاکہ آپ ابن مریم ؑ ہیں۔اس پر میں نے انہیں غور سےدیکھاتو مجھے ایک اور شخص بھی دکھائی دیا جوسرخ ،موٹا ،سرکےبال مڑے ہوئےاور داہنی آنکھ سےکانا تھا،اس کی آنکھ ایسی دکھائی دیتی تھی جیسے اٹھاہوا انگور ہو،میں نے پوچھا یہ کون ہے؟توفرشتوں نےبتایا کہ یہ دجال ہے۔اس سےشکل وصورت میں ابن قطن بہت زیادہ مشابہ تھا۔زہری نےکہا کہ یہ قبیلہ خزاعہ کاایک شخص تھاجو جاہلیت کےزمانہ میں مرگیا تھا۔
تشریح : جس روایت میں حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت جعد کالفظ آیا ہےتو اس کےمعنی گھونگھریالے با ل والے نہیں ہیں، ورنہ یہ حدیث اس کی مخالف ہوکی ۔اسی لیے ہم نے جعد کےمعنی اس حدیث میں کٹھے ہوئےجسم کےگئے ہیں اور مطابقت اس طرح بھی سکتی ہےکہ خفیف گھونگریال تیل ڈالنے یا پانی سےبھگونے یا گفتگو کرنے سےسیدھے ہوجاتے ہیں(وحیدی ) جس روایت میں حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت جعد کالفظ آیا ہےتو اس کےمعنی گھونگھریالے با ل والے نہیں ہیں، ورنہ یہ حدیث اس کی مخالف ہوکی ۔اسی لیے ہم نے جعد کےمعنی اس حدیث میں کٹھے ہوئےجسم کےگئے ہیں اور مطابقت اس طرح بھی سکتی ہےکہ خفیف گھونگریال تیل ڈالنے یا پانی سےبھگونے یا گفتگو کرنے سےسیدھے ہوجاتے ہیں(وحیدی )