كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابُ وَفَاةِ مُوسَى وَذِكْرِهِ بَعْدُ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ فَقَالَ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ قَالَ ارْجِعْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعَرَةٍ سَنَةٌ قَالَ أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا قَالَ ثُمَّ الْمَوْتُ قَالَ فَالْآنَ قَالَ فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنْ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كُنْتُ ثَمَّ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ تَحْتَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ قَالَ وَأَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ هَمَّامٍ حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ
کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
باب : حضرت موسی علیہ السلام کی وفات اور ان کے بعد کے حالات کا بیان
ہم سے یحیی بن موسیٰ نےبیان کیا،کہاہم سے عبدالرزاق نےبیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبردی ،انہیں عبداللہ بن طاؤس نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ نےبیان کیاکہ اللہ تعالی نےحضرت موسیٰ کے پاس آئے توانہوں نے انہیں چانٹا مارا (کیونکہ وہ انسان کوصورت میں آیاتھا) ملک الموت ،اللہ رب العزت کی بارگاہ میں واپس ہوئے اورعرض کیاکہ تونے اپنے ایک ایسے بندے کےپاس مجھے بھیجا جوموت کےلیے تیار نہیں ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا کہ دوبارہ ان سے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنا ہاتھ کسی بیل کے پیٹھ پررکھیں ،ان کے ہاتھ میں جتنے بال اس کے آجائیں ان میں سے ہربال کےبدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی( ملک الموت دوبارہ آئے اوراللہ تعالی کافیصلہ سنایا) حضرت موسیٰ بولے اےرب ! پھر اس کےبعد کیاہوگا؟ اللہ تعالی نےفرمایا پھر موت ہے۔حضرت موسیٰ نےعرض کیاکہ پھر ابھی کیوں نہ آجائے۔حضرت ابوہریرہ نےبیان کیا کہ پھر موسی نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ بیت المقدس سےمجھے اتنا قریب کردیا جائے کہ (جہاں ان کی قبر ہووہاں سے) اگر کوئی پتھر پھیکنے والا پتھر پھینکے تووہ بیت اللہ تک پہنچ سکے۔حضرت ابوہریر ہ نےبیان کیاکہ رسول اللہ ﷺنےفریایا اگر میں وہاں موجود ہوتا بیت المقدس میں ، میں تمہیں ان کی قبر دکھاتاجوراستے کےکنارے پر ہے، ریت کےسرخ ٹیلے سےنیچے۔عبدالرزاق بن ہمام نےبیان کہ ہمیں معمر نےخبردی ،انہیں ہمام نےاوران کوابوہریرہ نےنبی کریم ﷺ سےاسی طرح بیان کیا۔
تشریح :
ملک الموت حضرت موسی علیہ السلام کےپاس انسانی صورت میں آئے تھے۔لہذا آ دمی جان کر آپ نے ان کوطمانچہ مارا ، یہ چیز عقل سےبعید نہیں ہے۔مگر منکرین حدیث کوبہانہ چاہیے ۔انہوں نے اس حدیث کوبھی تختہ مشق بنایا ہےجوسرا سران کی جہالت ہے۔حضرت موسی علیہ السلام کو حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے اللہ تعالی کی ملاقات کےشوق میں موت ہی کو پسند کیا ۔ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آخر ت میں یہی کہاگیا تھا آپ نے بھی رفیق اعلی سےالحاق کےلیے دعا فرمائی جوقبول ہوئی۔کہا گیا ہےکہ حضرت موسی علیہ السلام نے خود بیت المقدس میں دفن ہونے کی دعا اس لیے نہیں فرمائی کہ آپ کوبنی اسرائیل کی طرف سےخطرہ تھاکہ وہ آپ کی قبر کوپوجنے لگ جائیں گےجیسا کہ مشرکین کاحال ہےکہ اپنے ابنیاء صلحاء کےمزارات کوعبادت گاہ بناتے چلے آرہے ہیں۔ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی کعبہ شریف سےڈھائی سومیل دورمدینہ طیبہ میں اللہ نےآرام گاہ نصیب فرمائی۔اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکۃ المکرمہ میں دفن ہوتے توامت اسلامیہ کےجہال کی طرف سےبھی یہی خطرہ تھا۔پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےدعا فرمائی کہ یااللہ ! میری قبر کو وثن (بت ) نہ بناییو کہ لوگ یہاں آکر پوجا پاٹ شروع کردیں۔الحمداللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبو ل ہوئی اور آج تک مسلمان نمامشرکوں کووہاں آپ کی قبر کوپوجا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
ملک الموت حضرت موسی علیہ السلام کےپاس انسانی صورت میں آئے تھے۔لہذا آ دمی جان کر آپ نے ان کوطمانچہ مارا ، یہ چیز عقل سےبعید نہیں ہے۔مگر منکرین حدیث کوبہانہ چاہیے ۔انہوں نے اس حدیث کوبھی تختہ مشق بنایا ہےجوسرا سران کی جہالت ہے۔حضرت موسی علیہ السلام کو حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے اللہ تعالی کی ملاقات کےشوق میں موت ہی کو پسند کیا ۔ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آخر ت میں یہی کہاگیا تھا آپ نے بھی رفیق اعلی سےالحاق کےلیے دعا فرمائی جوقبول ہوئی۔کہا گیا ہےکہ حضرت موسی علیہ السلام نے خود بیت المقدس میں دفن ہونے کی دعا اس لیے نہیں فرمائی کہ آپ کوبنی اسرائیل کی طرف سےخطرہ تھاکہ وہ آپ کی قبر کوپوجنے لگ جائیں گےجیسا کہ مشرکین کاحال ہےکہ اپنے ابنیاء صلحاء کےمزارات کوعبادت گاہ بناتے چلے آرہے ہیں۔ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی کعبہ شریف سےڈھائی سومیل دورمدینہ طیبہ میں اللہ نےآرام گاہ نصیب فرمائی۔اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکۃ المکرمہ میں دفن ہوتے توامت اسلامیہ کےجہال کی طرف سےبھی یہی خطرہ تھا۔پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےدعا فرمائی کہ یااللہ ! میری قبر کو وثن (بت ) نہ بناییو کہ لوگ یہاں آکر پوجا پاٹ شروع کردیں۔الحمداللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبو ل ہوئی اور آج تک مسلمان نمامشرکوں کووہاں آپ کی قبر کوپوجا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔