كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابُ حَدِيثِ الخَضِرِ مَعَ مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ ابْنُ الْأَصْبِهَانِيِّ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا سُمِّيَ الْخَضِرَ أَنَّهُ جَلَسَ عَلَى فَرْوَةٍ بَيْضَاءَ فَإِذَا هِيَ تَهْتَزُّ مِنْ خَلْفِهِ خَضْرَاءَ
کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
باب : حضرت خضراور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات
ہم سے محمد بن سعید اصبہانی نےبیان کیا ، ہم کوعبداللہ بن مبارک نےخبر دی ، انہیں معمر نے، انہیں ہمام بن منبہ نے اور انہیں حضرت ابوہریرہ نے کہ نبیﷺ نے فرمایا ،خضر کایہ نام اس وجہ سے ہوا کہ وہ ایک سوکھی زمین (جہاں سبزی کانام بھی نہ تھا) پر بیٹھے ۔لیکن جوں ہی وہ وہاں سے اٹھے تووہ جگہ سرسبز ہوکر لہلہانے لگی۔
تشریح :
کہتےہیں حضرت خضر کانام بلیا بن ملکان بن قانع بن عائبہ بن شالخ بن ارفحشد بم سام بن نوع ہے۔وہ حضرت ابراھیم سےپہلے پیدا ہوچکے تھے۔ابن عباس ؓ سےمنقول ہےکہ وہ حضرت آدم کےصلبی بیٹے تھے اوربھی مختلف روایات ہیں۔بقول قسطلانی اکثر علماء وصوفیا کہتےہیں کہ وہ زندہ ہیں مگر حضرت امام بخاری اور محقین امت اہل حدیث نےکہا ہے واللہ اعلم بالصواب ۔ ان کے بیٹھے سےزمین کا سر سبز ہوناان کی کرامت تھی ۔اولیاء اللہ اس کے برحق ہے بشرطیکہ صحیح طور پر ثابت ہو ۔من گھڑت نہ ہو مگر یہ کرامت محض اللہ تعالیب کاعطیہ ہوتی ہے۔اولیاءاللہ ہر وقت اس کے محتاج ہیں۔فروۃ بیضا ء کی تفسیر میں امام ابن حجر لکھتے ہیں۔الفروة قيل هي جلدة وجه الارض جلس عليها فانبتت وصارت حضراوجازفى الخضرفتح الخاء وكسرها واختلف فى نبوته قال الثعلبى كان فى زمن ابراهيم الخليل وقال الاكثرون انه حى موجود اليوم –الى اخره كذا فى الكرمانى قال العينى والمطابقة من حديث ان الخضراء مذكورفيه كذا فى الفتح-
روایت میں جس شخص نوفل بکالی کا ذکر ہےاہل دمشق سےایک فاضل تھا اوریہ بھی مروی ہےکہ یہ کعب احبار کابھتیجا تھا، اس کا خیال تھاکہ صاحب خضر موسی بن میشا ہیں جو توراۃ کی بنا پررسول ہیں مگر صحیح بات یہی ہےکہ یہ صاحب خضر موسیٰ بن عمران تھے۔مجمع البحرین جس کا ذکر ہےوہ جگہ ہےجہاں بخر فارس اور بحر روم ملتےہیں۔مچھلی جوناشتہ کےلیے ساتھ بھون کر رکھی گئی تھی جب حضرت موسیٰ اسے ہمراہ لےکر صخرہ کےپاس پہنچے تووہاں آب حیات کاچشمہ تھاجس سےوہ مچھلی زندہ ہوکر دریامیں کود گئی ۔حضرت حضر کےکاموں پر حضرت موسیٰ کےاعتراضات ظاہری حالات کی بنا پرتھے۔حضرت حضر نےجب حقائق کااظہار کیا توحضرت موسیٰ کےلیے ک بجز تسلیم کے کوئی چارہ نہ تھا۔مزید تفصیلات کتب تفاسیر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
کہتےہیں حضرت خضر کانام بلیا بن ملکان بن قانع بن عائبہ بن شالخ بن ارفحشد بم سام بن نوع ہے۔وہ حضرت ابراھیم سےپہلے پیدا ہوچکے تھے۔ابن عباس ؓ سےمنقول ہےکہ وہ حضرت آدم کےصلبی بیٹے تھے اوربھی مختلف روایات ہیں۔بقول قسطلانی اکثر علماء وصوفیا کہتےہیں کہ وہ زندہ ہیں مگر حضرت امام بخاری اور محقین امت اہل حدیث نےکہا ہے واللہ اعلم بالصواب ۔ ان کے بیٹھے سےزمین کا سر سبز ہوناان کی کرامت تھی ۔اولیاء اللہ اس کے برحق ہے بشرطیکہ صحیح طور پر ثابت ہو ۔من گھڑت نہ ہو مگر یہ کرامت محض اللہ تعالیب کاعطیہ ہوتی ہے۔اولیاءاللہ ہر وقت اس کے محتاج ہیں۔فروۃ بیضا ء کی تفسیر میں امام ابن حجر لکھتے ہیں۔الفروة قيل هي جلدة وجه الارض جلس عليها فانبتت وصارت حضراوجازفى الخضرفتح الخاء وكسرها واختلف فى نبوته قال الثعلبى كان فى زمن ابراهيم الخليل وقال الاكثرون انه حى موجود اليوم –الى اخره كذا فى الكرمانى قال العينى والمطابقة من حديث ان الخضراء مذكورفيه كذا فى الفتح-
روایت میں جس شخص نوفل بکالی کا ذکر ہےاہل دمشق سےایک فاضل تھا اوریہ بھی مروی ہےکہ یہ کعب احبار کابھتیجا تھا، اس کا خیال تھاکہ صاحب خضر موسی بن میشا ہیں جو توراۃ کی بنا پررسول ہیں مگر صحیح بات یہی ہےکہ یہ صاحب خضر موسیٰ بن عمران تھے۔مجمع البحرین جس کا ذکر ہےوہ جگہ ہےجہاں بخر فارس اور بحر روم ملتےہیں۔مچھلی جوناشتہ کےلیے ساتھ بھون کر رکھی گئی تھی جب حضرت موسیٰ اسے ہمراہ لےکر صخرہ کےپاس پہنچے تووہاں آب حیات کاچشمہ تھاجس سےوہ مچھلی زندہ ہوکر دریامیں کود گئی ۔حضرت حضر کےکاموں پر حضرت موسیٰ کےاعتراضات ظاہری حالات کی بنا پرتھے۔حضرت حضر نےجب حقائق کااظہار کیا توحضرت موسیٰ کےلیے ک بجز تسلیم کے کوئی چارہ نہ تھا۔مزید تفصیلات کتب تفاسیر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔