‌صحيح البخاري - حدیث 34

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابُ عَلاَمَةِ المُنَافِقِ صحيح حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ تَابَعَهُ شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 34

کتاب: ایمان کے بیان میں باب: منافق کی نشانیوں کے بیان میں ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان نے، وہ اعمش بن عبیداللہ بن مرہ سے نقل کرتے ہیں، وہ مسروق سے، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ ( بھی ) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ ( وہ یہ ہیں ) جب اسے امین بنایا جائے تو ( امانت میں ) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب ( کسی سے ) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب ( کسی سے ) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔ اس حدیث کو شعبہ نے ( بھی ) سفیان کے ساتھ اعمش سے روایت کیا ہے۔
تشریح : پہلی حدیث میں اور دوسری میں کوئی تعارض نہیں۔ اس لیے کہ اس حدیث میں “ منافق خالص ” کے الفاظ ہیں، مطلب یہ ہے کہ جس میں چوتھی عادت بھی ہو کہ لڑائی کے وقت گالیاں بکنا شروع کرے تو اس کا نفاق ہرطرح سے مکمل ہے اور اس کی عملی زندگی سراسر نفاق کی زندگی ہے اور جس میں صرف ایک عادت ہو، تو بہرحال نفاق تو وہ بھی ہے۔ مگرکم درجے کا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ایمان کی کمی وبیشی ثابت کرنا ہے جوان احادیث سے ظاہر ہے نیز یہ بتلانا بھی کہ معاصی سے ایمان میں نقصان آ جاتا ہے۔ ان احادیث میں نفاق کی جتنی علامتیں ذکر ہوئی ہیں وہ عمل سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی مسلمان ہونے کے بعد پھرعمل میں نفاق کا مظاہرہ ہو اور اگرنفاق قلب ہی میں ہے یعنی سرے سے ایمان ہی موجود نہیں اور محض زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کررہا ہے تو وہ نفاق تویقینا کفروشرک ہی کے برابرہے۔ بلکہ ان سے بڑھ کر۔ آیت شریفہ ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار ( النساء: 145 ) یعنی منافقین دوزخ کے نیچے والے درجے میں ہوں گے۔یہ ایسے ہی اعتقادی منافقوں کے بارے میں ہے۔ البتہ نفاق کی جو علامتیں عمل میں پائی جائیں، ان کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ قلب کا اعتقاد اور ایمان کا پودا کمزورہے اور اس میں نفاق کا گھن لگاہوا ہو خواہ وہ ظاہری طور پر مسلمان بناہوا ہو، اس کو عملی نفاق کہتے ہیں۔ نفاق کے معنی ظاہر وباطن کے اختلاف کے ہیں۔ شرع میں منافق اس کو کہتے ہیں جس کا باطن کفر سے بھرپور ہو اور ظاہر میں وہ مسلمان بناہوا ہو۔ رہا ظاہری عادات مذکورہ کا اثر سو یہ بات متفق علیہ ہے کہ محض ان خصائل ذمیمہ سے مومن منافق نہیں بن سکتا۔ وہ مومن ہی رہتا ہے۔ امانت سے مراد امانت الٰہی یعنی حدوداسلامی ہیں۔ اللہ نے قرآن پاک میں اسی کے بارے میں فرمایا ہے۔ انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال ( الاحزاب: 72 ) یعنی ہم نے اپنی امانت کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگرانھوں نے اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر اس بار امانت کے اٹھانے سے انکار کردیا۔مگرانسان نے اس کے لیے اقرار کرلیا۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ کتنا بڑا بوجھ ہے اس کے بعد باہمی طور پر ہرقسم کی امانت مرادہیں، وہ مالی ہوں یاجانی یا قولی، ان سب کو ملحوظ خاطر رکھنا اور پورے طور پر ان کی حفاظت کرنا ایمان کی پختگی کی دلیل ہے۔ بات بات میں جھوٹ بولنا بھی بڑی مذموم عادت ہے۔ خدا ہر مسلمان کو بچائے۔ آمین پہلی حدیث میں اور دوسری میں کوئی تعارض نہیں۔ اس لیے کہ اس حدیث میں “ منافق خالص ” کے الفاظ ہیں، مطلب یہ ہے کہ جس میں چوتھی عادت بھی ہو کہ لڑائی کے وقت گالیاں بکنا شروع کرے تو اس کا نفاق ہرطرح سے مکمل ہے اور اس کی عملی زندگی سراسر نفاق کی زندگی ہے اور جس میں صرف ایک عادت ہو، تو بہرحال نفاق تو وہ بھی ہے۔ مگرکم درجے کا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ایمان کی کمی وبیشی ثابت کرنا ہے جوان احادیث سے ظاہر ہے نیز یہ بتلانا بھی کہ معاصی سے ایمان میں نقصان آ جاتا ہے۔ ان احادیث میں نفاق کی جتنی علامتیں ذکر ہوئی ہیں وہ عمل سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی مسلمان ہونے کے بعد پھرعمل میں نفاق کا مظاہرہ ہو اور اگرنفاق قلب ہی میں ہے یعنی سرے سے ایمان ہی موجود نہیں اور محض زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کررہا ہے تو وہ نفاق تویقینا کفروشرک ہی کے برابرہے۔ بلکہ ان سے بڑھ کر۔ آیت شریفہ ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار ( النساء: 145 ) یعنی منافقین دوزخ کے نیچے والے درجے میں ہوں گے۔یہ ایسے ہی اعتقادی منافقوں کے بارے میں ہے۔ البتہ نفاق کی جو علامتیں عمل میں پائی جائیں، ان کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ قلب کا اعتقاد اور ایمان کا پودا کمزورہے اور اس میں نفاق کا گھن لگاہوا ہو خواہ وہ ظاہری طور پر مسلمان بناہوا ہو، اس کو عملی نفاق کہتے ہیں۔ نفاق کے معنی ظاہر وباطن کے اختلاف کے ہیں۔ شرع میں منافق اس کو کہتے ہیں جس کا باطن کفر سے بھرپور ہو اور ظاہر میں وہ مسلمان بناہوا ہو۔ رہا ظاہری عادات مذکورہ کا اثر سو یہ بات متفق علیہ ہے کہ محض ان خصائل ذمیمہ سے مومن منافق نہیں بن سکتا۔ وہ مومن ہی رہتا ہے۔ امانت سے مراد امانت الٰہی یعنی حدوداسلامی ہیں۔ اللہ نے قرآن پاک میں اسی کے بارے میں فرمایا ہے۔ انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال ( الاحزاب: 72 ) یعنی ہم نے اپنی امانت کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگرانھوں نے اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر اس بار امانت کے اٹھانے سے انکار کردیا۔مگرانسان نے اس کے لیے اقرار کرلیا۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ کتنا بڑا بوجھ ہے اس کے بعد باہمی طور پر ہرقسم کی امانت مرادہیں، وہ مالی ہوں یاجانی یا قولی، ان سب کو ملحوظ خاطر رکھنا اور پورے طور پر ان کی حفاظت کرنا ایمان کی پختگی کی دلیل ہے۔ بات بات میں جھوٹ بولنا بھی بڑی مذموم عادت ہے۔ خدا ہر مسلمان کو بچائے۔ آمین