كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} [يوسف: 7] صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ رُومَانَ، وَهِيَ أُمُّ عَائِشَةَ، عَمَّا قِيلَ فِيهَا مَا قِيلَ، قَالَتْ: بَيْنَمَا أَنَا مَعَ عَائِشَةَ جَالِسَتَانِ، إِذْ وَلَجَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، وَهِيَ تَقُولُ: فَعَلَ اللَّهُ بِفُلاَنٍ وَفَعَلَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: لِمَ؟ قَالَتْ: إِنَّهُ نَمَى ذِكْرَ الحَدِيثِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَيُّ حَدِيثٍ؟ فَأَخْبَرَتْهَا. قَالَتْ: فَسَمِعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَخَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا، فَمَا أَفَاقَتْ إِلَّا وَعَلَيْهَا حُمَّى بِنَافِضٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا لِهَذِهِ» قُلْتُ: حُمَّى أَخَذَتْهَا مِنْ أَجْلِ حَدِيثٍ تُحُدِّثَ بِهِ، فَقَعَدَتْ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَئِنْ حَلَفْتُ لاَ تُصَدِّقُونِي، وَلَئِنِ اعْتَذَرْتُ لاَ تَعْذِرُونِي، فَمَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ يَعْقُوبَ وَبَنِيهِ، فَاللَّهُ المُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ، فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ مَا أَنْزَلَ، فَأَخْبَرَهَا، فَقَالَتْ: بِحَمْدِ اللَّهِ لاَ بِحَمْدِ أَحَدٍ
کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
باب : ( حضرت یوسف علیہ السلام کا بیان ) اللہ پاک نے فرمایا کہ بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا‘ کہا ہم کو محمد بن فضیل نے خبر دی ‘ کہا ہم سے حصین نے بیان کیا‘ ان سے سفیان نے‘ ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہ سے عائشہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو بہتان تراشاگیا تھا اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاریہ عورت ہمارے یہاں آئی اور کہا کہ اللہ فلاں ( مسطح بن اثاثہ ) کو تباہ کردے اور وہ اسے تباہ کربھی چکا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں انہوں نے بتایا کہ اسی نے تو یہ جھوٹ مشہور کیا ہے ۔ پھر انصاریہ عورت نے ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر تہمت کا سارا ) واقعہ بیان کیا‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے ( اپنی والدہ سے ) پوچھا کہ کون سا واقعہ ؟ تو ان کی والدہ نے انہیں واقعہ کی فصیل بتائی ۔ عائشہ نے پوچھا کہ کیا یہ قصہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم ہوگیا ہے ؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں ۔ یہ سنتے ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بے ہوش ہوکر گرپڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھاہوا تھا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا ؟ میں نے کہا کہ ایک بات ان سے ایسی کہی گئی تھی اور اسی کے صدمے سے ان کو بخار آگیا ہے ۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا اللہ کی قسم ! اگر میں قسم کھاؤں جب بھی آپ لوگ میری بات نہیں مان سکتے اور اگر کوئی عذر بیا ن کروں تو اسے بھی تسلیم نہیں کرسکتے ۔ بس میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے ( کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کی من گھڑت کہا نی سن کر فرمایا تھا کہ ) ” جو کچھ تم کہہ رہے ہو میں اس پر اللہ ہی کی مدد چاہتا ہوں ۔ “ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا وہ نازل فرمایا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر عائشہ رضی اللہ عنہ کو دی تو انہوں نے کہا کہ اس کے لئے میں صرف اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کسی اور کا نہیں ۔
تشریح :
حضرت یوسف اوران کے بھائیوں کے ذکر سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف بھی اشارہ کیا ہو جس میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے دوران گفتگو یوں کہا کہ مجھ کو حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد نہ آیا تو میں نے یوسف کا باپ کہہ دیا۔
حضرت یوسف اوران کے بھائیوں کے ذکر سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف بھی اشارہ کیا ہو جس میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے دوران گفتگو یوں کہا کہ مجھ کو حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد نہ آیا تو میں نے یوسف کا باپ کہہ دیا۔