‌صحيح البخاري - حدیث 3365

كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابٌ یَزِفُون : النَّسَلانٌ فِی المَشئیِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ المَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا كَانَ بَيْنَ إِبْرَاهِيمَ وَبَيْنَ أَهْلِهِ مَا كَانَ، خَرَجَ بِإِسْمَاعِيلَ وَأُمِّ إِسْمَاعِيلَ، وَمَعَهُمْ شَنَّةٌ فِيهَا مَاءٌ، فَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ، فَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا، حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَوَضَعَهَا تَحْتَ دَوْحَةٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِبْرَاهِيمُ إِلَى أَهْلِهِ، فَاتَّبَعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ، حَتَّى لَمَّا بَلَغُوا كَدَاءً نَادَتْهُ مِنْ وَرَائِهِ: يَا إِبْرَاهِيمُ إِلَى مَنْ تَتْرُكُنَا؟ قَالَ: إِلَى اللَّهِ، قَالَتْ: رَضِيتُ بِاللَّهِ، قَالَ: فَرَجَعَتْ فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا، حَتَّى لَمَّا فَنِيَ المَاءُ، قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا، قَالَ فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتِ الصَّفَا فَنَظَرَتْ، وَنَظَرَتْ هَلْ تُحِسُّ [ص:145] أَحَدًا، فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا، فَلَمَّا بَلَغَتِ الوَادِيَ سَعَتْ وَأَتَتِ المَرْوَةَ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ أَشْوَاطًا، ثُمَّ قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ، تَعْنِي الصَّبِيَّ، فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَإِذَا هُوَ عَلَى حَالِهِ كَأَنَّهُ يَنْشَغُ لِلْمَوْتِ، فَلَمْ تُقِرَّهَا نَفْسُهَا، فَقَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ، لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا، فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتِ الصَّفَا، فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا، حَتَّى أَتَمَّتْ سَبْعًا، ثُمَّ قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ، فَإِذَا هِيَ بِصَوْتٍ، فَقَالَتْ: أَغِثْ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ خَيْرٌ، فَإِذَا جِبْرِيلُ، قَالَ: فَقَالَ بِعَقِبِهِ هَكَذَا، وَغَمَزَ عَقِبَهُ عَلَى الأَرْضِ، قَالَ: فَانْبَثَقَ المَاءُ، فَدَهَشَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ، فَجَعَلَتْ تَحْفِزُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ تَرَكَتْهُ كَانَ المَاءُ ظَاهِرًا». قَالَ: فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ المَاءِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا، قَالَ: فَمَرَّ نَاسٌ مِنْ جُرْهُمَ بِبَطْنِ الوَادِي، فَإِذَا هُمْ بِطَيْرٍ، كَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوا ذَاكَ، وَقَالُوا: مَا يَكُونُ الطَّيْرُ إِلَّا عَلَى مَاءٍ، فَبَعَثُوا رَسُولَهُمْ فَنَظَرَ فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ، فَأَتَاهُمْ فَأَخْبَرَهُمْ، فَأَتَوْا إِلَيْهَا فَقَالُوا: يَا أُمَّ إِسْمَاعِيلَ، أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَكُونَ مَعَكِ، أَوْ نَسْكُنَ مَعَكِ، فَبَلَغَ ابْنُهَا فَنَكَحَ فِيهِمُ امْرَأَةً، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ لِأَهْلِهِ: إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي، قَالَ: فَجَاءَ فَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ؟ فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: ذَهَبَ يَصِيدُ، قَالَ: قُولِي لَهُ إِذَا جَاءَ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ، فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَ: أَنْتِ ذَاكِ، فَاذْهَبِي إِلَى أَهْلِكِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ لِأَهْلِهِ: إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي، قَالَ: فَجَاءَ، فَقَالَ: أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ؟ فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: ذَهَبَ يَصِيدُ، فَقَالَتْ: أَلاَ تَنْزِلُ فَتَطْعَمَ وَتَشْرَبَ، فَقَالَ: وَمَا طَعَامُكُمْ وَمَا شَرَابُكُمْ؟ قَالَتْ: طَعَامُنَا اللَّحْمُ وَشَرَابُنَا المَاءُ، قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي طَعَامِهِمْ وَشَرَابِهِمْ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَرَكَةٌ بِدَعْوَةِ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ» قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ لِأَهْلِهِ: إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي، فَجَاءَ فَوَافَقَ إِسْمَاعِيلَ مِنْ وَرَاءِ زَمْزَمَ يُصْلِحُ نَبْلًا لَهُ، فَقَالَ: يَا إِسْمَاعِيلُ، إِنَّ رَبَّكَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ لَهُ بَيْتًا، قَالَ: أَطِعْ رَبَّكَ، قَالَ: إِنَّهُ قَدْ أَمَرَنِي أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ، قَالَ: إِذَنْ أَفْعَلَ، أَوْ كَمَا قَالَ: قَالَ فَقَامَا فَجَعَلَ إِبْرَاهِيمُ يَبْنِي، وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الحِجَارَةَ وَيَقُولاَنِ: {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ العَلِيمُ} [البقرة: 127]. قَالَ: حَتَّى ارْتَفَعَ البِنَاءُ، وَضَعُفَ الشَّيْخُ عَنْ نَقْلِ الحِجَارَةِ، فَقَامَ عَلَى حَجَرِ المَقَامِ، فَجَعَلَ يُنَاوِلُهُ الحِجَارَةَ وَيَقُولاَنِ: {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ العَلِيمُ} [البقرة: 127]

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3365

کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں باب : سورۃ صافات میں جو لفظ یزفون وارد ہوا ہے ، اس کے معنی ہیں دوڑ کر چلے ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک بن عمرو نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا ، ان سے کثیر بن کثیر نے ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی ( حضرت سارہ علیہ السلام ) کے درمیان جو کچھ جھگڑا ہونا تھا جب وہ ہوا تو آپ اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ ( حضرت ہاجرہ علیہ السلام ) کو لے کر نکلے ، ان کے ساتھ ایک مشکیزہ تھا ۔ جس میں پانی تھا ، اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اسی مشکیزہ کا پانی پیتی رہیں اوراپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں ۔ جب ابراہیم مکہ پہنچے تو انہیں ایک بڑے درخت کے پاس ٹھہراکر اپنے گھر واپس جانے لگے ۔ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں ۔ جب مقام کداءپر پہنچے تو انہوں نے پیچھے سے آواز دی کہ اے ابراہیم ! ہمیں کس پر چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پر ! ہاجرہ علیہ السلام نے کہا کہ پھر میں اللہ پر خوش ہوں ۔ بیان کیا کہ پھر حضرت ہاجرہ اپنی جگہ پر واپس چلی آئیں اور اسی مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں جب پانی ختم ہوگیا تو انہوںنے سوچا کہ ادھر ادھر دیکھناچاہئے ، ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظرآجائے ۔ راوی نے بیان کیا کہ یہی سوچ کر وہ صفا ( پہاڑی ) پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف دیکھا کہ شاید کوئی نظر آجائے لیکن کوئی نظر نہ آیا ۔ پھر جب وادی میں اتریں تو دوڑ کر مروہ تک آئیں ۔ اسی طرح کئی چکر لگائے ، پھر سوچا کہ چلوں ذرا بچے کو تو دیکھوں کس حالت میں ہے ۔ چنانچہ آئیں اور دیکھا تو بچہ اسی حالت میں تھا ( جیسے تکلیف کے مارے ) موت کے لیے تڑپ رہا ہو ۔ یہ حال دیکھ کر ان سے صبر نہ ہوسکا ، سوچا چلوں دوبارہ دیکھوں ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظرآجائے ، آئیں اور صفا پہاڑ پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف نظر پھیر پھیر کر دیکھتی رہیں لیکن کوئی نظر نہ آیا ۔ اس طرح حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے سات چکر لگائے پھر سوچا ، چلوں دیکھوں بچہ کس حالت میں ہے ؟ اسی وقت انہیں ایک آواز سنائی دی ۔ انہوں نے ( آواز سے مخاطب ہوکر ) کہا کہ اگر تمہارے پاس کوئی بھلائی ہے تو میری مدد کرو ۔ وہاں جبریل علیہ السلام موجود تھے ۔ انہوں نے اپنی اےڑی سے یوں کیا ( اشارہ کرکے بتایا ) اور زمین اےڑی سے کھودی ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس عمل کے نتیجے میں وہاں سے پانی پھوٹ پڑا ۔ ام اسماعیل ڈریں ۔ ( کہیں یہ پانی غائب نہ ہوجائے ) پھر وہ زمین کھودنے لگیں ۔ راوی نے بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اگر وہ پانی کو یوں ہی رہنے دیتیں تو پانی زمین پر بہتا رہتا ۔ غرض ہاجرہ علیہ السلام زمزم کا پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس کے بعد قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وادی کے نشیب سے گزرے ۔ انہیں وہاں پرند نظر آئے ۔ انہیں یہ کچھ خلاف عادت معلوم ہوا ۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ پرندہ تو صرف پانی ہی پر ( اس طرح ) منڈلاسکتا ہے ۔ ان لوگوں نے اپنا آدمی وہاں بھیجا ۔ اس نے جاکر دیکھا تو واقعی وہاں پانی موجود تھا ۔ اس نے آکر اپنے قبیلے والوں کو خبردی تو یہ سب لوگ یہاں آگئے اورکہا کہ اے ام اسماعیل ! کیا ہمیں اپنے ساتھ رہنے کی یا ( یہ کہا کہ ) اپنے ساتھ قیام کرنے کی اجازت دیں گی ؟ پھر ان کے بیٹے ( اسماعیل علیہ السلام ) بالغ ہوئے اور قبیلہ جرہم ہی کی ایک لڑکی سے ان کا نکاح ہوگیا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا اور انہوں نے اپنی اہلیہ ( حضرت سارہ علیہ السلام ) سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو ( مکہ میں ) چھوڑ آیا تھا ان کی خبرلینے جاوں گا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لائے اور سلام کرکے دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے ۔ انہوں نے فرمایا کہ جب وہ آئیں تو ان سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔ جب اسماعیل علیہ السلام آئے تو ان کی بیوی نے واقعہ کی اطلاع دی ۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں ہو ( جسے بدلنے کے لیے ابراہیم علیہ السلام کہہ گئے ہیں ) اب تم اپنے گھر جاسکتی ہو ۔ بیان کیا کہ پھر ایک مدت کے بعد دوبارہ ابراہیم علیہ السلام کو خیال ہوا اور انہوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو چھوڑ آیا ہوں انہیں دیکھنے جاوں گا ۔ راوی نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ٹھہرئےے اور کھانا تناول فرمالیجئے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے پیتے کیا ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت کھاتے ہیں اور پانی پیتے ہیں ۔ آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! ان کے کھانے اور ان کے پانی میں برکت نازل فرما ۔ بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ابراہیم علیہ السلام کی اس دعاءکی برکت اب تک چلی آرہی ہے ۔ راوی نے بیان کیاکہ پھر ( تیسری بار ) ابراہیم علیہ السلام کو ایک مدت کے بعد خیال ہوا اور اپنی اہلیہ سے انہوں نے کہا کہ جن کو میں چھوڑآیا ہوں ان کی خبرلینے مکہ جاوں گا ۔ چنانچہ آپ تشریف لائے اور اس مرتبہ اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جو زمزم کے پیچھے اپنے تیر ٹھیک کررہے تھے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ، اے اسماعیل ! تمہارے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہاں اس کا ایک گھر بناوں ، بیٹے نے عرض کیا کہ پھر آپ اپنے رب کا حکم بجا لائےے ۔ انہوں نے فرمایا اور مجھے یہ بھی حکم دیا ہے کہ تم اس کام میں میری مدد کرو ۔ عرض کیا کہ میں اس کے لیے تیار ہوں ۔ یا اسی قسم کے اور الفاظ ادا کئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں باپ بیٹے اٹھے ۔ ابراہیم علیہ السلام دیواریں اٹھاتے تھے اور اسماعیل علیہ السلام انہیں پتھر لالاکر دیتے تھے اور دونوں یہ دعا کرتے جاتے تھے ۔ اے ہمارے رب ! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول کر ۔ بے شک تو بڑا سننے والا ، بہت جاننے والا ہے ۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر جب دیوار بلندہوگئی اور بزرگ ( ابراہیم علیہ السلام ) کو پتھر ( دیوار پر ) رکھنے میں دشواری ہوئی تو وہ مقام ( ابراہیم ) کے پتھر پر کھڑے ہوئے اور اسماعیل علیہ السلام ان کو پتھر اٹھااٹھاکر دیتے جاتے اور ان حضرات کی زبان پر یہ دعا جاری تھی ۔ ” اے ہمارے رب ! ہماری طرف سے اسے قبول فرما لے ۔ بے شک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے “ ۔
تشریح : اس طویل حدیث میں بہت سے امور مذکور ہوئے ہیں۔ شروع میں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے کمر پٹہ باندھنے کا ذکر ہے۔ جس سے عورت جلد چل پھر کر کام کاج با آسانی کرسکتی ہے۔ بعض نے یوں ترجمہ کیا ہے، تاکہ اس کمر پٹہ سے اپنے پاؤں کے نشان جو راستے میں پڑتے ہیں وہ مٹاتی جائیں تاکہ حضرت سارہ علیہا السلام ان کا پتہ نہ پاسکیں۔ ہوا یہ تھا کہ حضرت سارہ علیہا السلام کے کوئی اولاد نہیں تھی ( بعد میں ہوئی ) اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام جو ایک شاہ مصر کی شاہزادی تھیں اور جسے اس بادشاہ نے اس خاندان کی برکات دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حرم میں داخل کردیا تھا چنانچہ حضرت ہاجرہ کو حمل رہ گیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام عالم وجود میں آئے۔ حضرت سارہ علیہا السلام کے رشک میں بہت اضافہ ہوگیا، تو اس ڈر سے حضرت ہاجرہ علیہا السلام گھر سے نکلیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی ساتھ لے لیا اور کمر سے پٹہ باندھا تاکہ اس کے ذریعہ اپنے پاؤں کے نشانات کو مٹاتی چلیں۔ اس طرح حضرت سارہ ان کا پتہ نہ پاسکیں۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین پر لابسایا جہاں اللہ پاک نے ان کے ہاتھوں اپنا گھر ازسرنوتعمیر کرایا۔ جرہم جس کا ذکر روایت میں آیا ہے، یمن کا ایک قبیلہ ہے۔ یہی قبیلہ حضرت ہاجرہ سے اجازت لے کر یہاں آباد ہوا اور جوان ہونے پر حضرت اسماعیل کی اسی خاندان میں شادی ہوگئی۔ پہلی شادی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پسند نہیں فرمایا جو اشارہ سے طلاق کے لیے کہہ گئے۔ دوسری بیوی کو صابرہ و شاکرہ پاکر ان سے خوشی کا اظہار فرمایا، بے شک ان واقعات میں اہل بصیرت کے لیے بہت سے اسباق ہدایت پوشیدہ ہیں، جن کو سمجھنے کے لیے نظر بصیرت کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک ہر بخاری شریف مطالعہ کرنے والے بھائی کو نظر بصیرت عطا فرمائے۔ آمین۔ اس طویل حدیث میں بہت سے امور مذکور ہوئے ہیں۔ شروع میں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے کمر پٹہ باندھنے کا ذکر ہے۔ جس سے عورت جلد چل پھر کر کام کاج با آسانی کرسکتی ہے۔ بعض نے یوں ترجمہ کیا ہے، تاکہ اس کمر پٹہ سے اپنے پاؤں کے نشان جو راستے میں پڑتے ہیں وہ مٹاتی جائیں تاکہ حضرت سارہ علیہا السلام ان کا پتہ نہ پاسکیں۔ ہوا یہ تھا کہ حضرت سارہ علیہا السلام کے کوئی اولاد نہیں تھی ( بعد میں ہوئی ) اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام جو ایک شاہ مصر کی شاہزادی تھیں اور جسے اس بادشاہ نے اس خاندان کی برکات دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حرم میں داخل کردیا تھا چنانچہ حضرت ہاجرہ کو حمل رہ گیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام عالم وجود میں آئے۔ حضرت سارہ علیہا السلام کے رشک میں بہت اضافہ ہوگیا، تو اس ڈر سے حضرت ہاجرہ علیہا السلام گھر سے نکلیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی ساتھ لے لیا اور کمر سے پٹہ باندھا تاکہ اس کے ذریعہ اپنے پاؤں کے نشانات کو مٹاتی چلیں۔ اس طرح حضرت سارہ ان کا پتہ نہ پاسکیں۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین پر لابسایا جہاں اللہ پاک نے ان کے ہاتھوں اپنا گھر ازسرنوتعمیر کرایا۔ جرہم جس کا ذکر روایت میں آیا ہے، یمن کا ایک قبیلہ ہے۔ یہی قبیلہ حضرت ہاجرہ سے اجازت لے کر یہاں آباد ہوا اور جوان ہونے پر حضرت اسماعیل کی اسی خاندان میں شادی ہوگئی۔ پہلی شادی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پسند نہیں فرمایا جو اشارہ سے طلاق کے لیے کہہ گئے۔ دوسری بیوی کو صابرہ و شاکرہ پاکر ان سے خوشی کا اظہار فرمایا، بے شک ان واقعات میں اہل بصیرت کے لیے بہت سے اسباق ہدایت پوشیدہ ہیں، جن کو سمجھنے کے لیے نظر بصیرت کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک ہر بخاری شریف مطالعہ کرنے والے بھائی کو نظر بصیرت عطا فرمائے۔ آمین۔