كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابٌ یَزِفُون : النَّسَلانٌ فِی المَشئیِ صحيح قَالَ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَمَّا كَثِيرُ بْنُ كَثِيرٍ، فَحَدَّثَنِي قَالَ: إِنِّي وَعُثْمَانَ بْنَ أَبِي سُلَيْمانَ، جُلُوسٌ مَعَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، فَقَالَ: مَا هَكَذَا حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، وَلَكِنَّهُ قَالَ: أَقْبَلَ إِبْرَاهِيمُ بِإِسْمَاعِيلَ وَأُمِّهِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ، وَهِيَ تُرْضِعُهُ، مَعَهَا شَنَّةٌ لَمْ يَرْفَعْهُ ثُمَّ جَاءَ بِهَا إِبْرَاهِيمُ وَبِابْنِهَا إِسْمَاعِيلَ
کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
باب : سورۃ صافات میں جو لفظ یزفون وارد ہوا ہے ، اس کے معنی ہیں دوڑ کر چلے
محمد بن عبداللہ انصاری نے کہا کہ ہم سے اسی طرح یہ حدیث ابن جریج نے بیان کی لیکن کثیر بن کثیر نے مجھ سے یوں بیان کیا کہ میں اور عثمان بن ابوسلیمان دونوں سعید بن جبیر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، اتنے میں انہوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ حدیث اس طرح بیان نہیں کی بلکہ یوں کہا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام کو لے کر مکہ کی سرزمین کی طرف آئے ۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں ۔ ان کے ساتھ ایک پرانی مشک تھی ۔ ابن عباس نے اس حدیث کو مرفوع نہیں کیا ۔
تشریح :
حضرت ابراہیم علیہ السلام وہی مشک بھر پانی حضرت ہاجرہ کو دے کر ان کو اور ان کے شیرخوار بچے کو اس اجاڑ بیابان جنگل میں بے آب و دانہ محض اللہ کے بھروسے پر چھوڑ کر چلے آئے۔ جب وہ پانی ختم ہوگیا اور بچہ پیاس سے بے قرار ہونے لگا تو حضرت ہاجرہ گھبراکر پانی کی تلاش میں نکلیں، انہوں نے صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگائے لیکن پانی کا نشان نہ ملا۔ آخر حضرت جبریل علیہ السلام اترے اور انہوں نے زمین پر اپنا ایک پر مارا جس سے زمزم کا چشمہ ظاہر ہوگیا۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے اس چشمے کا پانی ایک مینڈ بناکر روک دیا۔ وہ حوض کی شکل میں ہوگیا۔ آج تک یہ چشمہ قائم ہے۔ جس کو زمزم کہتے ہیں اور اس کا پانی برکت والا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے، اللہ پاک اسے پورا کردیتا ہے۔ حدیث ہٰذا میں زمزم کے بارے میں یہ الفاظ وارد ہیں کہ ” اگرحضرت ہاجرہ اس پر مینڈ نہ لگاتیں تو لکان عینا معینا وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا “۔ بعض ترجمہ کرنے والوں نے یہاں ترجمہ میں یہ اور اضافہ کردیا ہے کہ ( روئے زمین پر ) وہ ایک بہتا چشمہ ہوتا۔ روئے زمین سے ترکرنے والوں کی اگر ساری زمین یعنی ربع مسکون مراد ہے تو یہ خود ان کا اضافہ ہے۔ حدیث میں صرف یہی ہے کہ وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا۔ ترجمہ میں ایسے اضافات ہی سے منکرین حدیث کو موقع ملا ہے کہ وہ حدیث کے خلاف اپنی ہفوات باطلہ سے عوام کو گمراہ کریں۔ اعاذنا اﷲ عنہم آمین۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام وہی مشک بھر پانی حضرت ہاجرہ کو دے کر ان کو اور ان کے شیرخوار بچے کو اس اجاڑ بیابان جنگل میں بے آب و دانہ محض اللہ کے بھروسے پر چھوڑ کر چلے آئے۔ جب وہ پانی ختم ہوگیا اور بچہ پیاس سے بے قرار ہونے لگا تو حضرت ہاجرہ گھبراکر پانی کی تلاش میں نکلیں، انہوں نے صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگائے لیکن پانی کا نشان نہ ملا۔ آخر حضرت جبریل علیہ السلام اترے اور انہوں نے زمین پر اپنا ایک پر مارا جس سے زمزم کا چشمہ ظاہر ہوگیا۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے اس چشمے کا پانی ایک مینڈ بناکر روک دیا۔ وہ حوض کی شکل میں ہوگیا۔ آج تک یہ چشمہ قائم ہے۔ جس کو زمزم کہتے ہیں اور اس کا پانی برکت والا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے، اللہ پاک اسے پورا کردیتا ہے۔ حدیث ہٰذا میں زمزم کے بارے میں یہ الفاظ وارد ہیں کہ ” اگرحضرت ہاجرہ اس پر مینڈ نہ لگاتیں تو لکان عینا معینا وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا “۔ بعض ترجمہ کرنے والوں نے یہاں ترجمہ میں یہ اور اضافہ کردیا ہے کہ ( روئے زمین پر ) وہ ایک بہتا چشمہ ہوتا۔ روئے زمین سے ترکرنے والوں کی اگر ساری زمین یعنی ربع مسکون مراد ہے تو یہ خود ان کا اضافہ ہے۔ حدیث میں صرف یہی ہے کہ وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا۔ ترجمہ میں ایسے اضافات ہی سے منکرین حدیث کو موقع ملا ہے کہ وہ حدیث کے خلاف اپنی ہفوات باطلہ سے عوام کو گمراہ کریں۔ اعاذنا اﷲ عنہم آمین۔